(آخری حصہ)
اب آئیے عمران خان کی طرف۔ ہم نے اپنی گذشتہ گفتگو میں اُن کی شخصیت، سیاسی رویوں اور پارٹی کے حوالے سے کچھ سوالات قائم کیے تھے، چلیے اب ان پر بات کرتے ہیں۔
عمران خان نے اپنی جماعت کے منشور کو نئے پاکستان کے تصور کے طور پر پیش کیا۔ اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اُن کی پاکستانی کرکٹ کے لیے خدمات اور شوکت خانم ہسپتال جیسے کاموں نے ان کی پرکشش شخصیت کو مزید پرکشش بنایا اور نمایاں کیا۔ یہ بھی، لیکن سچ ہے کہ 2013ء کے الیکشن کے بعد اُن کی سیاسی شخصیت اپنے کس بل کھول کر جس طرح سامنے آئی ہے، اُس نے اُن کی کرشمہ سازی کے تأثر کو بڑی حد تک زائل کردیا ہے۔
انھوں نے خیبر پختونخواہ میں مکمل اختیار والی حکومت حاصل کی۔ صوبے کے تعلیم، صحت اور امنِ عامہ جیسے بڑے مسائل کو توجہ سے دیکھا۔ ان کے بارے میں حکمتِ عملی بنائی اور اقدامات کیے۔ انفرا اسٹرکچر کی فراہمی کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا۔ انصاف اور مساوات کے فروغ اور کرپشن کے خاتمے کو سماجی ترقی اور جمہوری نظام کے استحکام کی بنیادی ضرورت قرار دیا۔ ظاہر ہے، یہ سب وہ باتیں جن کی اہمیت اور ضرورت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ دیکھنا مگر یہ چاہیے، آیا وہ اپنے صوبے میں مذکورہ مسائل کو حل کرنے یا اُن پر قابو پانے اور مطلوبہ اہداف کو حاصل کرنے میں کام یاب رہے؟ اب جب کہ اپنے صوبے میں اُن کا اقتدار پانچویں برس کے پہلے نصف کو پورا کررہا ہے، وہ اپنی بعض ناکامیوں کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں۔ چلیے، ان کو چھوڑ دیجیے کہ جن کا انھوں نے اعتراف کرلیا ہے۔ البتہ جن کا نہیں کیا، یہ دیکھ کر ملال انگیز تعجب ہوتا ہے کہ ان کی صورتِ حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔
مثال کے طور پر ہمارے سامنے ہے کہ امنِ عامہ کے معاملے میں اُن کی حکومت کوئی کریڈٹ نہیں لے سکتی، اس لیے کہ ان برسوں میں جو واقعات خیبر پختونخواہ میں ہوتے رہے ہیں، وہ امنِ عامہ کے کسی بھی پیمانے کے مطابق اطمینان بخش قرار نہیں دیے جاسکتے، اور یہ صورتِ حال موجودہ وقت تک برقرار ہے۔ اس کے بعد تعلیم کا معاملہ بھی کسی مثالی درجے میں نظر نہیں آتا۔ چند دن پہلے تک کی خبروں کے مطابق اسکولز اور اساتذہ کے مسائل کی نشان دہی ہوئی ہے۔ پچھلے دنوں یہ خبر بھی آئی کہ درجنوں اسکول بند کیے جارہے ہیں۔ حکومت اس کی وجہ ناقص کارکردگی اور طلبہ کی معمولی تعداد بتاتی ہے، جب کہ دوسرے ذرائع کہتے ہیں کہ بند کیے جانے والے بیشتر اسکول طالبات کے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کارکردگی کو بہتر بنانے کے اقدامات کیوں نہیں کیے گئے؟ بند کرنے کے بجائے اسکولز کو ضم کرکے بھی اس مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کی جاسکتی تھی۔ اب رہی صحت تو اس شعبے کے مسائل کا حال تو ایک ڈینگی کے پھیلاؤ نے ہی پوری طرح کھول کر رکھ دیا۔ یہ کہنا کہ ڈینگی کا مسئلہ صوبے میں موسم کی تبدیلی، یعنی سردی بڑھنے سے حل ہوجائے گا، حکومتی افراد کی ناکامی اور بے حسی دونوں کو ظاہر کرتا ہے۔ اب اس سے آگے دیکھیے۔ کلیدی عہدوں پر افراد کی تعیناتی سے لے کر خیبر پختونخواہ کے وزیرِاعلیٰ تک کے بارے میں جو خبریں اور رپورٹس آئی ہیں، ان کی بنا پر اصلاح اور ترقی کے جن عزائم کا اظہار عمران خان نے کیا تھا، اُن کے آگے بڑا سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔
تحریکِ انصاف اور اُس کے سربراہ کی اقتداری ناکامی کے یہ حوالے اپنی جگہ، لیکن اسلام آباد میں دیے گئے دھرنے سے پاناما تک اور اس کے بعد موجودہ صورتِ حال تک عمران خان خود کو ایک مدبر قائد اور بُردبار راہنما کے طور پر پیش کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ اگر ان کے ساتھ بھی مشاورت اور قریبی احباب کی رائے کا وہی معاملہ ہے جو نواز شریف کے ساتھ ہے تو پھر فاتحہ ہی پڑھی جاسکتی ہے، اور اگر یہ سب کچھ وہ صرف اور صرف ذاتی سوجھ بوجھ کے ساتھ کرتے ہیں (جیسا کہ عام تأثر دیا جاتا ہے) تو پھر فاتحہ نہیں لاحول پڑھنا چاہیے۔
اس لیے کہ قومی سطح کے راہنما کے نزدیک بڑے مسائل اور بنیادی امور پر مشاورت کی جو اہمیت ہوتی، وہ اُس سے غافل دکھائی دیتے ہیں۔ اُن کی شخصیت میں جو ٹھہراؤ، تحمل اور سنجیدگی نظر آنی چاہیے، وہ اس کے برخلاف اپنا تأثر قائم کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں اُنھوں نے اپنے عوامی جلسوں میں جو زبان اختیار کی اور مخالفین کے لیے جو طرزِ تخاطب ان کا معمول ہے، وہ عوام کو سستی تفریح مہیا کرنے والی فلموں سے مستعار نظر آتا ہے۔ ان کے اسی انداز اور رویے کی دیکھا دیکھی نوجوان طبقے کے وہ لوگ جو اُن کا اثر قبول کرتے ہیں، ان سے بھی آگے نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اُن کی حرکات، طرزِکلام اور اندازِنظر سنجیدہ لوگوں کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ اس ضمن میں اس رائے کا برملا اظہار کیا جاتا ہے کہ عمران خان کا انداز نوجوانوں کو بے باکی کا جو راستہ دکھا رہا ہے، وہ ہمارے سماجی اخلاق کی نفی کے مترادف ہے۔
قومی امور اور بین الاقوامی سطح پر اپنے ذاتی تأثر کے بارے میں بھی عمران خان کا رویہ نہایت ناپختہ اور ناشائستہ ہے۔ اس کا تازہ اظہار وزیرِخارجہ خواجہ آصف کے دوروں اور بیانات کے ذیل میں سامنے آیا ہے۔ عمران خان اپنے ردِعمل کے اظہار میں اس حقیقت اور وقت کی ضرورت کو یکسر فراموش کرگئے کہ سیاسی شخصیات اور سیاسی جماعتوں کے باہمی اختلافات خواہ کسی بھی نوعیت کے ہوں، لیکن جب معاملہ قومی بیانیے کا ہو تو اُس وقت باقی سب چیزوں سے قطعِ نظر کرکے ملکی مفاد اور قومی استحکام کے اقدام کو فوقیت دے کر سامنے رکھا جاتا ہے۔ خواجہ آصف کی اپنی سیاسی حیثیت اور بصیرت ایک الگ موضوع ہے، لیکن وہ اس وقت وزیرِخارجہ کی حیثیت سے جو کچھ کہہ رہے ہیں، ہمیں اُسے قومی بیانیے کے طور پر دیکھنا چاہیے اور اس کی توثیق کرنی چاہیے۔
مضحکہ خیز بات یہ بھی ہے کہ عمران خان نے جو کچھ خواجہ آصف اور اُن کے بیانات کے بارے میں کہا ہے، وہ اُن کی ذاتی رائے یا اُن کی پارٹی کا اپنا قائم کیا ہوا مؤقف بھی نہیں ہے۔ اصل میں یہ وہ تأثر ہے جو خود ن لیگ کے چودھری نثار نے ان سے پہلے ظاہر کیا تھا۔ چودھری نثار اور خواجہ آصف کے مابین چپقلش سے پورا ملک واقف ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ خواجہ آصف نے گھر کی صفائی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے جو بات کہی ہے، اُس میں ذرا سی بے احتیاطی کا شائبہ تو ہوسکتا ہے، لیکن اُس میں کسی بدنیتی کو ڈھونڈ نکالنا یقیناً معیوب بات ہے۔
ویسے دیکھا جائے خواجہ آصف کا یہ بیان ایسا غلط بھی نہیں ہے، بلکہ ایک متوازن رویے کو ظاہر کرتا ہے۔ اُسے ہدفِ ملامت بنانا چودھری نثار اور عمران خان دونوں کی غیرسنجیدگی، ناسمجھی اور قومی شعور سے بیگانگی کا مظہر ہے۔ احسن اقبال نے جس طرح خواجہ آصف کے بیان کا دفاع کیا اور اس کی جن لفظوں میں توثیق کی، اس سے وہ ان دونوں حضرات سے کہیں زیادہ بردبار اور قومی سیاست کے معاملے میں باشعور ثابت ہوئے ہیں۔
لگے ہاتھوں ایک اور معاملہ بھی دیکھتے چلیے۔ عمران خان نے خود اور اُن کی پارٹی قیادت نے بھی مل کر اُن کی سیاسی شخصیت کا جو تصور ابھارا ہے، وہ ایک اصول پرست، حق گو اور کمیٹڈ راہنما کا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اُن کی ساری اصول پسندی، حق گوئی اور نظریاتی کمٹ منٹ کی اصلیت بھی پچھلے دنوں میں اُس وقت سامنے آجاتی ہے جب قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف کی تبدیلی کے لیے ووٹوں کی گنتی پوری کرنے کے لیے وہ ایم کیو ایم سے رابطہ کرنے میں تأمل نہیں کرتے نظر نہیں آئے۔ انھیں کم سے کم ایک بار ضرور یاد کرنا چاہیے کہ یہ وہی جماعت ہے جسے کچھ عرصے پہلے تک وہ فاشسٹ قرار دیتے تھے، ہر موقع پر جس کے خلاف گفتگو کرتے تھے، جس جماعت کو وہ کراچی کی بدامنی اور تباہی کا ذمے دار ٹھہراتے تھے اور جس کی طرزِ سیاست کو برا کہتے تھے۔
یہ وہی جماعت ہے جس کے قائد کے خلاف انھوں نے پاکستان اور برطانیہ میں قانونی چارہ جوئی کی تھی، جس پر وہ ملک دشمن ہونے کا الزام لگاتے تھے اور جس کے ساتھ وہ کسی سمجھوتے پر آمادہ نہیں تھے۔ آج محض لیڈر آف دی اپوزیشن کی کرسی کے لیے اُسے اپنے حلیفوں میں شامل کرکے وہ اپنے سیاسی کردار اور نظریاتی کمٹ منٹ کی حقیقت کو کھول کر نہیں دکھا رہے ہیں تو اور کیا کررہے ہیں۔
نوازشریف اور عمران خان دونوں سیاسی راہنماؤں کے رویوں اور اقدامات کا یہ جائزہ یقیناً بہت مختصر ہے۔ اس میں بلاشبہ بے شمار اضافے کی گنجائش باقی ہے، لیکن اس سے اتنی بات تو ضرور واضح ہوجاتی ہے کہ دونوں نمایاں سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے سیاسی نظریات اور رُجحانات کیا ہیں۔ اپنے نعروں اور دعووں سے ہٹ کر انھوں نے ملک و قوم کے لیے کیا خدمات انجام دی ہیں۔ عوام نے 2013ء کے انتخابات میں جو مینڈیٹ انھیں دیا تھا، انھوں نے اس کا پاس کس حد تک رکھا ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ مسائل میاں نواز شریف اور مسلم لیگ ن کے بھی ہیں، لیکن عمران خان اور تحریکِ انصاف کے مسائل کا تناسب مایوس کن حد تک زیادہ ہے۔ علاوہ ازیں نواز شریف کے پاس تو اپنی اقتداری کارکردگی دکھانے کے لیے ایک نہیں، کئی ایک چیزیں ہیں، جن کی اہمیت اور ضرورت سے اُن کے دشمن بھی مشکل ہی سے انکار کرسکتے ہیں، لیکن عمران خان اور اُن کی پارٹی کا دامن اس حوالے سے بھی خالی نظر آتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اُن کا زیادہ وقت اور زیادہ توانائی دعووں اور نعروں پر صرف کی گئی ہے۔ اس سے تعمیری کام نہیں لیا گیا۔
اس ضمن میں ایک اور بات بھی غور طلب ہے۔ نواز شریف اور اُن کی پارٹی کی بقا کا انحصار اُن کی حکومتی کارکردگی اور سیاسی حکمتِ عملی پر ہے۔ یہ حقائق بھی اب منظرِ عام پر آچکے ہیں کہ اُن کو جن متحارب قوتوں کا سامنا ہے، وہ سب سیاسی نہیں ہیں۔ گویا نواز شریف کا معرکہ محض اپنی سیاسی بقا کا نہیں ہے، بلکہ یہ ملک میں جمہوری نظام کے تسلسل کا مسئلہ بھی ہے۔ نیب کی پیشی کے موقع پر رینجرز کی تعیناتی اور وفاقی وزیر احسن اقبال کے اندر داخلے پر پابندی کی صورتِ حال نے عوام کو بہت کچھ سمجھا دیا ہے۔
اس کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس سے رینجرز کا ہٹ جانا محض ایک ردِعمل کا اظہار نہیں تھا۔ قومی صورتِ حال کو سمجھنے کے لیے یہ دراصل ایک اور بلیغ اشارہ تھا۔ یہ سب چیزیں اُن لوگوں کے لیے جو اِس ملک میں جمہوری نظام کا تسلسل اور استحکام چاہتے ہیں، چشم کشا ہیں، اور اُنھیں مائل کرتی ہیں کہ اُن کا وزن کھل کر جمہوریت کے پلڑے میں ہو۔ دوسری طرف عمران خان نے اپنے دھرنے میں جس ایمپائر کی انگلی کے اٹھنے کا انتظار کیا تھا اور جو بوجوہ نہیں اٹھ سکی تھی، اُسے اب بھی کچھ لوگ ان کی پشت پناہی کرتے دیکھ سکتے ہیں۔ عمران خان اپنے ایمپائر اور اُس کی انگلی سے کچھ فائدہ اٹھا پائیں گے یا نہیں، یہ تو وقت بتائے گا، لیکن سرِدست وہ اس کے اشاروں پر جو کررہے ہیں، یہ حتمی طور پر طے ہے کہ اُس سے وہ کوئی عزت ہرگز نہیں سمیٹ سکتے۔
ایک طرف مسلم لیگ ن اور تحریکِ انصاف کی صورتِ حال اور سیاسی منظرنامے میں اُن کا کردار ہے جس کا جائزہ حوالوں اور مثالوں کے ساتھ لیا گیا، اور دوسری طرف پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی جیسی سیاسی جماعتیں ہیں جو اب محض علاقائی اور گروہی سیاست کی نمائندہ ہوکر رہ گئی ہیں۔ ملک کے مرکزی سیاسی دھارے میں اُن کا عمل دخل ایسا نہیں ہے کہ وہ مؤثر قوت کے طور پر ابھریں اور ملک کے عوام کے لیے کوئی اہم کردار ادا کرسکیں۔ ایسا کیوں ہوا اور اس کے تدارک کی کوئی صورت ممکن ہے کہ نہیں، اس پر الگ اور تفصیل سے گفتگو کی ضرورت ہے۔
بہرحال، اُن کے بعد وطنِ عزیز کی مذہبی جماعتیں ہیں جو واضح طور پر دو حصوں میں بٹی ہوئی ہیں، جن میں سے ایک حصہ مذہب کو دہشت اور بربریت کے لیے استعمال کرتا ہے اور دوسرا حصہ مذہب کو سیاسی کامیابی اور اقتدار کے حصول کے لیے آلۂ کار کے طور پر بروئے کار لانا چاہتا ہے— اب اس پورے سیاسی منظرنامے کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں ملک کے سیاسی مستقبل اور قومی تقدیر کے بارے میں کیا توقعات اور کیسی امیدیں رکھنی چاہییں؟
بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ قومی سیاست کا نقشہ خوش آثار نہیں ہے۔ اس مختصر جائزے میں جو احوال پیش کیا گیا ہے، وہ یقینا حوصلہ افزا نہیں ہے۔ اپنی اشرافیہ کے رویوں اور نوکر شاہی حیلوں سے بھی ہم سب لوگ خوب واقف ہیں۔ عدلیہ کے بارے میں بھی ہمیں کوئی مستقل نوعیت کی خوش فہمی نہیں ہے۔ اُن کے حوالے سے نظریۂ ضرورت، بھٹو کی پھانسی سے لے کر آصف زرداری کی بریت اور نواز شریف کے اقامہ پر فیصلوں تک کے بارے میں ہمارے یہاں سنجیدہ ذہن ان گنت سوالات اٹھاتے ہیں۔
افواجِ پاکستان کی شجاعت، حوصلہ مندی اور ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے قربانیوں کی دل سے قدر کرنے کے باوجود ہمارا قومی حافظہ یہ نہیں بھول سکتا کہ ہمارے قومی وجود، ملکی سالمیت، جمہوری نظام اور سیاسی استحکام کو بعض جرنیلوں نے اپنی طالع آزما فطرت کی وجہ سے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
یہ سب باتیں اپنی جگہ ہیں، اور ہم ان حقائق کی نفی نہیں کرسکتے— لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ قوموں کی تقدیر کی تبدیلی کا سفر جب ایک بار شروع ہوجاتا ہے تو پھر رُکتا نہیں ہے۔ ہمارے حالات فی الوقت حوصلہ شکنی کا سامان زیادہ رکھتے ہیں، لیکن یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ اب ہم ان حالات کو دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت کا برملا مظاہرہ کرنے لگے ہیں۔ یہ محض ایک خوش فہمی پر مبنی بیان نہیں ہے، بلکہ اگر ہم ذرا توجہ سے غور کریں تو حقائق ہوا کے ذائقے کی تبدیلی کا واضح ثبوت پیش کررہے ہیں۔
مثال کے طور پر اسی حالات کی تبدیلی کو دیکھ لیجیے، یہ مظاہر چند افراد تک محدود نہیں ہیں۔ ہمارے اخبارات، رسائل، میگزینز، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر ان سارے مسائل اور معاملات کے بارے میں اب بہت کھل کر بحث ہونے لگی ہے اور اس بحث کا دائرہ بھی بہت وسیع ہے۔ سماج کے کم و بیش سب طبقات، ہر طرح کے نظریات رکھنے والے اور ہر عمر کے افراد اس بحث کا حصہ بن رہے ہیں۔ یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ یہ نہایت اہم واقعہ اور بڑا غیرمعمولی شعور ہے۔
اس سے ایک نیا قومی شعور تشکیل پا رہا ہے۔ ایک رجحان کی نشوونما ہورہی ہے۔ ایک قومی طرزِ احساس نمود کررہا ہے، جس میں چھوٹے بڑے، مرد عورت، امیر غریب، پڑھے لکھے اور اَن پڑھ سب طرح کے لوگ شامل ہیں۔ قوموں کی زندگی میں ایسا اُس وقت ہوتا ہے جب واقعی ایک نیا قومی شعور پیدا ہوتا ہے اور نئی قومی قیادت ظہور کے مرحلے میں داخل ہونے لگتی ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے موجودہ حالات سے اور ان کے اثرات سے افسردہ یا مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ وہ عمل ہمارے یہاں اب شروع ہوچکا ہے کہ جس میں آگے چل کر ہم:
قوم ، ملک ، سلطنت
پائندہ تابندہ باد
کی تعبیر دیکھیں گے اور اس کے اُجلے دنوں کی گواہی دیں گے۔
The post قوم ملک سلطنت appeared first on ایکسپریس اردو.