Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

آگ برسی آسماں سے

$
0
0

علم طبیعیات میں گرمی یا حرارت کو توانائی کی ایک ایسی شکل قرار دیا جاتا ہے جو درجۂ حرارت میں تبدیلی کی وجہ سے ایک جسم یا نظام سے دوسرے جسم یا نظام تک منتقل ہوتی ہے۔

حرارت یا گرمی کیا ہوتی ہے؟ یہ اصل میں کسی جسم میں موجود خردبینی ذرات یعنی ایٹمز اور مالیکیولز وغیرہ کی حرکت کے باعث موجود یا پیدا ہونے والی توانائی کو کہا جاتا ہے۔ اسے انگریزی حرف Q کی علامت سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ جب دو نظاموں یا اجسام میں سے ایک جسم یا نظام کا درجۂ حرارت کم اور دوسرے کا زیادہ ہوجائے تو حرارتی توانائی زیادہ درجۂ حرارت والے نظام یا جسم سے کم درجۂ حرارت والے نظام یا جسم کی طرف منتقل ہونے لگتی ہے۔ اس عمل کو انتقال حرارت یا ایصال حرارت کہا جاتا ہے۔

حرارت اور درجۂ حرارت میں ایک خاص فرق ہے جو عام لوگ محسوس نہیں کرپاتے۔ وہ یہ کہ درجۂ حرارت کسی جسم میں موجود ذروں کی اوسط حرکی توانائی کا پیمانہ ہے، جب کہ حرارت ذروں کی کل حرکی توانائی ہے۔ یعنی اگر ہمیں کسی جسم کا درجۂ حرارت اور اس میں موجود ذروں کی تعداد معلوم ہو تو دونوں مقداروں کو ضرب دینے سے اس جسم کی کل حرارتی توانائی حاصل ہو جائے گی۔

گرمی یا حرارت توانائی ہے، لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر یہ اپنی تباہ کاریاں دکھانے پر آجائے تو پھر اس کے غضب سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ یہ گرمی ہی تو ہے جو ریگستانوں میں یا گرم علاقوں میں بڑی بڑی بیماریوں کا سبب بنتی ہے اور اس کی وجہ سے نہ جانے کتنے ہی افراد لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ گرمی یا حرارت انسانی جسم کے لیے ضروری ہے، یہ نہ ہو تو انسان بیمار ہوجائے، مگر اس کی ضرورت اعتدال میں ہوتی ہے، حد سے زیادہ گرمی بڑی بڑی مصیبتوں کا سبب بن جاتی ہے۔

کراچی میں چند سال پہلے پڑنے والی گرمی نے جس طرح تباہی مچائی تھی، وہ آج بھی اہل پاکستان کو یاد ہے، بے شمار لوگ ہیٹ اسٹروک کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ ثابت ہوا کہ گرمی یا حرارت اگر حد سے زیادہ بڑھ جائے تو اس کے کیسے کیسے بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں۔

ذیل میں ہم کچھ ایسے واقعات پیش کررہے ہیں جو اسی گرمی یا حرارت کی وجہ سے دنیا کے مختلف خطوں میں پیش آئے جنہوں نے ایسی تباہی پھیلائی کہ آج تک ریکارڈ میں درج ہیں:

شدید گرمی کی وجہ سے جب جنوبی کیلی فورنیا میں ٹرین پٹری سے اتر گئی۔ یہ دنیا کا انوکھا ترین واقعہ جنوبی کیلی فورنیا میں جون 2017 میں پیش آیا، جہاں اس وقت اتنی شدید گرمی پڑی کہ جس کی حدت نے ٹرین کی پٹریوں کو اتنا نرم کردیا تھا کہ وہ اپنی جگہ خم کھاگئیں، گویا یہ پٹریاں پگھل گئی تھیں جن کی وجہ سے ان پر ٹرین کا چلنا ممکن نہیں رہا تو وہ ان پگھلی ہوئی پٹریوں کی وجہ سے نیچے اتر گئی۔

یہ واقعہ Tulare کائونٹی میں پیش آیا تھا جو کیلی فورنیا کے جنوبی سرے پر واقع ہے۔ اس حوالے سے کیلی فورنیا اسٹیٹ کے اعلیٰ عہدے داران نے اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ ٹرین کے پٹری سے اترنے کی وجہ بہت زیادہ گرمی کے باعث ٹرین کی پٹریوں کا پگھل جانا تھا۔

اس حوالے سے یونین پیسیفک نے یہ اطلاع دی تھی کہ Delano اور Earlimart کے درمیان ہائی وے 99 پر 19ریل کاریں اسی شدید گرمی کی وجہ سے اپنی اپنی پٹریوں سے اتر گئی تھیں۔ مگر خوش قسمتی کی بات یہ تھی کہ اس موقع پر کوئی ایک مسافر بھی زخمی یا ہلاک نہیں ہوا، بل کہ سب مکمل طور پر محفوظ رہے۔

ایک سرد وین جس میں بہت بڑی تعداد میں ایندھن ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا جارہا تھا، وہ اس گرمی کی زد میں آگئی اور اس کا کم و بیش 30گیلن ایندھن اس کے ٹینکر سے لیک ہوکر بہہ گیا۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ اس سرد وین سے بہہ جانے والا ایندھن نہ تو کسی قریبی نہر تک پہنچ سکا اور نہ ہی اس کی وجہ سے جنگلی حیات کے لیے کوئی خطرہ پیدا ہوسکا، بل کہ اس لیک ہونے والے ایندھن نے کسی کو نقصان نہیں پہنچایا۔

جنوب مغربی امریکا میں خوف ناک گرمی نے طیاروں کو اُڑنے نہیں دیا
کیا دنیا میں اتنی شدید گرمی بھی پڑسکتی ہے کہ اس کی وجہ سے طیاروں کو اڑنے سے روک دیا جائے اور گرائونڈ کردیا جائے؟
ہے تو عجیب سی بات، لیکن ایسا ہوا تھا۔ یہ جون 2017کا واقعہ ہے جب فونیکس میں اسکائی ہاربر ایئر پورٹ پر بعض فضائی کمپنیوں نے بہت زیادہ شدید درجۂ حرارت کی وجہ سے اپنی متعدد پروازیں منسوخ کردی تھیں اور بعض طیارے اڑنے سے محروم رہ گئے تھے۔ اصل میں جب گرمی حد سے زیادہ شدت اختیار کرلیتی ہے تو اس کی وجہ سے متعدد طیاروں کے لیے اپنی منزل کے لیے پرواز کرنا یعنی ٹیک آف کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ پائلٹوں کے لیے ایسی گرمی میں اٹھانا یا بلند کرنا ناممکن ہونے لگتا ہے، ایسے میں انہیں زیادہ زور دار دھکا (تھرسٹ) لگانا پڑتا ہے، پھر ایسے میں وزن کی پابندیوں کا بھی معاملہ ہوتا ہے۔ ایسے طیاروں میں کم سے کم وزن ہونا چاہیے، چناں چہ بعض اوقات تیز گرمی پروازوں کو اپنا سفر جاری رکھنے سے روک دیتی ہے۔ امریکن ایئر لائنز نے فونیکس کے اندر اور باہر اپنی 43پروازیں منسوخ کی تھیں۔ اس ضمن میں مقامی اور قریبی مقامات تک پروازوں کے لیے بڑے طیاروں کی جگہ چھوٹے مقامی جیٹ استعمال کیے گئے تھے، کیوں کہ یہ جیٹ ایسے تیز گرم موسم میں بھی آسانی سے پرواز کرسکتے ہیں۔

جب تیز گرمی نے ماہر موسمیات کے سامنے سے نقشوں کے رنگ اڑا دیے
ماہرین موسمیات کا کام یہ ہوتا ہے کہ جب وہ بہت زیادہ شدید یا تیز گرمی کی نشان دہی کرتے ہیں تو اس موقع پر اپنے سامنے موجود موسمیاتی نقشے میں تیز گرمی والے مقامات یا علاقوں کو سرخ یا لال رنگ سے ظاہر کرتے ہیں۔ اسی طرح جب وہ سرد موسمی مقامات کی نشان دہی کرتے ہیں تو ان میں نیلا رنگ بھرتے ہیں۔ مگر جون 2017 میں یہ ہوا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکا کے جنوب مغربی علاقوں کا موسم اس حد تک شدید گرم ہوگیا کہ ماہرین موسمیات کے سامنے سے سرخ رنگ ہی اڑ گیا جس سے انہیں گرمی کی نشان دہی کرنی تھی۔

ہوا یوں کہ فونیکس میٹروپولیٹن کے ایک علاقے میں WeatherBELL Analytics, نے جب موسمیاتی نقشے پر گرم ترین علاقے کی نشان دہی کرنی چاہی تو اسے سرخ کے بجائے ہرے رنگ سے ظاہر کیا۔ اس حوالے سے جب ماہرموسمیات مارک ٹورے گروسا سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا:’’تمام نارنجی اور سرخ رنگ تو استعمال ہوچکے تھے، اب بہت زیادہ شدید گرمی کو ظاہر کرنے کا دوسرا مرحلہ یہ تھا کہ اس کے لیے میں اپنے اعلیٰ عہدے داران سے بنفشی رنگوں کے استعمال کی اجازت لوں، کیوں کہ سرخ رنگ اب نہیں رہا تھا۔ لیکن اتفاق سے یہ رابطہ نہ ہوسکا، جب مجھے کوئی اور دوسرا راستہ دکھائی نہ دیا تو پھر میں نے ہرا یا سبز رنگ استعمال کرلیا اور اس رنگ سے نہایت شدید گرم موسم کو ظاہر کیا۔

جب دہران، سعودی عربیہ میں درجۂ حرارت 178 ڈگری تک جا پہنچا
دنیا کے اکثر گوشوں میں ویسے تو ماضی میں بہت زیادہ درجۂ حرارت ریکارڈ کیے گئے ہیں، لیکن ان میں ماضی کا سب سے زیادہ ریکارڈ کیا گیا درجۂ حرارت 134 ڈگری فیرن ہائیٹ تھا، جو کیلی فورنیا کی ڈیتھ ویلی (وادی موت) کا تھا۔ لیکن کرۂ ارض کے رہنے والوں کے لیے اس سے بھی زیادہ سخت دن وہ آیا جب دہران، سعودی عربیہ میں یہ درجۂ حرارت 2015 میں 178 ڈگری تک جا پہنچا۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ ایسا یکایک ہونے والی ماحولیاتی اور موسمی تبدیلیاں تھیں۔
اس حوالے سے کیے جانے والے ایک ہنگامی اور فوری مطالعے کے بعد ماہرین نے اس درجۂ حرارت کو اب تک کی تاریخ کا سب سے بلند ترین درجۂ حرارت قرار دیا۔ یہ ایسی شدید ہول ناک گرمی تھی جس میں انسان کے لیے اپنا وجود برقرار رکھنا کسی معجزے سے کم نہیں۔
اس کے علاوہ دہران میں بلند ترین درجۂ حرارت کو ایک اور ریکارڈ بھی قائم ہوا تھا۔ جولائی2003 میں یہاں کا درجۂ حرارت 108 ڈگری تک جا پہنچا تھا جس میں ہوا میں نمی کا تناسب 95 تھا، جس کی وجہ سے گرمی کی شدت ناقابل برداشت ہوگئی تھی۔

قیامت خیز گرمی اور سیاحوں کا موت کی وادی میں اجتماع
یہ بات سن کر شاید آپ کو بہت عجیب محسوس ہو کہ ناقابل بیان گرم موسم میں سیاح اور شوقین حضرت وادی موت یا ڈیتھ ویلی کی طرف دیوانوں کی طرح چلے جارہے ہوں جو پہلے ہی اپنی قیامت خیز گرمی کے حوالے سے ساری دنیا میں مشہور ہے۔

یہ واقعہ بھی 2017 ہی کا ہے اور ریاست ہائے متحدہ امریکا میں پیش آیا۔

نیشنل پارک کے باہر فرنس کریک وزیٹر سینٹر میں اس وقت تھرمامیٹر 132 ڈگری درجۂ حرارت ظاہر کررہا تھا۔ بے تحاشہ گرم اور جھلسادینے والی گرمی نے ہر طرف سکوت طاری کردیا تھا، پھر ایسا نہیں تھا کہ لوگ اس سے بے خبر رہے ہوں، انہیں سوشل میڈیا کے ذریعے یہ خبریں مسلسل مل رہی تھیں کہ اس وقت ناقابل برداشت گرمی نے لوگوں کو اور مقامات کو تپتی ہوئی بھٹی بناکر رکھ دیا ہے۔ ایسے میں چند ایک دیوانوں نے نہیں، بل کہ بے شمار جنونی اور من چلے سیاحوں نے ڈیتھ ویلی کا رخ صرف اس لیے کیا تھا تاکہ وہ اس اہم اور تاریخی موقع کی عمدہ تصاویر لے کر اپنے پاس محفوظ کرسکیں۔ اس موقع پر نیشنل پارک کی ترجمان ایبے وائنز نے بتایا تھا کہ زمینی درجۂ حرارت تو اور بھی زیادہ تھا جو اس وقت 200 ڈگری تک پہنچ چکا تھا۔ اس موقع پر ایک جنونی عورت نے تو کمال کردیا تھا۔ وہ جب اپنے سینڈلوں سے محروم ہوگئی تو کوئی دوسرا راستہ نہ پاکر اسے لگ بھگ نصف میل جھلسادینے والی گرم ریت پر ریگستان میں ننگے پائوں چلنا پڑا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے دونوں پائوں بری طرح جھلس گئے اور اس کے زخموں میں ناقابل بیان تکلیف بھی ہونے لگی۔ چناں چہ ماہرین موسمیات کو فوری طور پر یہ ہدایت جاری کرنی پڑی کہ آئندہ جب کبھی آپ موسم گرما میں اس علاقے میں جائیں تو اپنی حفاظت کا پورا پورا انتظام کریں، تاکہ آپ کو مزید کسی آزمائش سے نہ گزرنا پڑے۔

جب ایرانی شہر کا درجۂ حرارت 165ڈگری تک پہنچ گیا
یہ 2015کی بات ہے کہ ایران کے ایک شہر Bandar Mahshahr میں جب طوفانی گرمی نے اپنے غیظ و غضب کا مظاہرہ کیا تو وہاں درجۂ حرارت حیران کن حد تک 165فیرن ہائیٹ تک جا پہنچا جس کی وجہ وہ heat dome تھا جو ایک بلند دبائو والا high-pressure ridge تھا جو اس وقت وہاں سے گزر رہا تھا۔ چناں چہ Bandar Mahshahr نامی ایرانی شہر کا اس وقت جو درجۂ حرارت ریکارڈ کیا گیا، وہ ایرانی خطے کا بلند ترین درجۂ حرارت تھا۔ اس وقت شدید گرمی نے لوگوں کو بدحال کرکے رکھ دیا تھا۔
انہیں اپنے گھروں سے باہر نکلتے وقت ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے گرم پانی سے بھیگا ہوا ایک تولیہ ان کے چہرے پر رکھ کر زور سے دبا دیا ہے، کیوں وہ لوگ کوشش کے باوجود بھی اس قیامت خیز گرمی سے نجات حاصل نہیں کر پارہے تھے۔ انہیں ایسا لگ رہا تھا جیسے قدرت نے دوزخ کی بھٹی کا رخ ادھر کردیا ہے۔
ایسے موقع پر جن لوگوں نے عینک پہنی تھی، ان کی عینک کے شیشوں کے اوپر دھند سی جم جاتی تھی جس سے دیکھنا مشکل بلکہ ناممکن ہوجاتا تھا، اس کے علاوہ شدید گرمی کی وجہ سے سبھی افراد بار بار پسینے میں نہارہے تھے جس سے بچنے کا ان کے پاس کوئی راستہ نہیں رہا تھا۔ مگر وہ اس ناقابل برداشت گرمی کو برداشت کرنے پر مجبور تھے۔

جب لندن کی ٹیوب نے اپنے اطراف کی زمین کو گرم کردیا
کسی زمانے میں لندن میں رہنے والے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال ابھرا کی کیا لندن کا سب وے سسٹم بھی گرم ہونے لگا ہے اور کیا کسی سائنسی یا موسمی تغیر یا تبدیلی کی وجہ سے اس نظام میں کوئی خلل پیدا ہوگیا ہے جس نے اس سسٹم کو بہت زیادہ گرم کردیا ہے؟

یہ 1900کی بات ہے کہ جب لندن کی زیرزمین سرنگوں کو جو عام طور سے مٹی سے تعمیر کی گئی ہیں، انہیں گھیرنے والی گرمی کا درجۂ حرارت عام طور سے 14 درجے سینٹی گریڈ ہوا کرتا تھا۔ ان دنوں سرنگوں سے باہر چوں کہ ہوا اور موسم ٹھنڈا ہوتا تھا، اس لیے وہ سرنگیں بھی سرد ہوا کرتی تھیں، بل کہ وہ بیرونی موسم کے مقابلے میں زیادہ سرد تھیں۔ لیکن پھر پوری ایک صدی یعنی سو سال بعد وہاں کے موسم کی کہانی میں یکایک ڈرامائی تبدیلی پیدا ہوگئی اور کبھی سرد رہنے والی سرنگیں اس حد تک گرم ہوگئیں کہ دیکھنے اور محسوس کرنے والے کافی پریشان ہوگئے اور موسم کی اس تبدیلی نے انہیں حیران کردیا۔ ہوا یوں کہ ان سرنگوں کے اندر کا درجۂ حرارت ایک دم بڑھ گیا اور اکثر یہ 20 سے25درجے سینٹی گریڈ کے درمیان پہنچ گیا۔ ماہرین نے اس صورت حال کو دیکھا اور اس کا تجزیہ کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اس شدید گرمی کا لگ بھگ 89 حصہ ان ٹرینوں سے پیدا ہورہا تھا جو ان سرنگوں میں سفر کرتی تھیں۔ اس گرمی کا بڑا سبب ٹرین کے بریکوں کی رگڑ تھی جن کی وجہ سے یہ گرمی بڑھے چلی جارہی تھی، جب کہ اس نہایت شدید گرمی کی 7فی صد وجہ مسافر تھے اور 4 فی صد سبب ٹنل سپورٹ سسٹم تھا جس کی وجہ سے یہ سرنگیں یکایک گرم ہونے لگی تھیں اور انہوں نے عام لوگوں کو اور زیرزمین سرنگوں میں ٹرینوں کے ذریعے سفر کرنے والے مسافروں کو پریشان کردیا تھا۔

شدید گرمی 2100تک ہر چار میں سے تین افراد کی جان لے سکتی ہے
ابھی تک تو ہم نے ماضی میں یا موجودہ دور میں شدید ترین اور قیامت خیز گرمی کے باؑعث ہونے والے نقصانات کی بات کی اور اپنے قارئین کے سامنے وہ ریکارڈ پیش کیے جو دنیا میں اب تک بن چکے ہیں۔ لیکن اب ہم کچھ بات مستقبل میں نہایت تیز گرمی کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کی کریں گے اور سائنسی و موسمیاتی ماہرین کے پیش کردہ خطرات اور پیش گوئیوں کا بھی جائزہ لیں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے گرمی کی موجودہ لہر اور مستقبل میں پیدا ہونے والی لہروں سے بچائو کے لیے کوئی حکمت عملی تیار نہ کی اور گرین ہائوس گیسوں کے اخراج کی ممکنہ روک تھام کے لیے ٹھوس بنیادوں پر منصوبہ بندی نہ کی تو ہمارا کرۂ ارض بہت بڑے خطرے میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق آنے والے زمانے یعنی 2100 عیسوی تک دنیا کے ہر چار افراد میں سے تین افراد اسی گرم وبا یا بلا کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر جائیں گے۔ یہ دعویٰ نیچر کلائمٹ چینج کی ایک رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متوقع شدید گرمی سے بچائو کے لیے اگر فوری طور پر اقدامات بھی کیے گئے تب بھی اگلی صدی کے اختتام تک صورت حال ایسی ہوجائے گی کہ شدید گرمی کے حملوں کی زد میں آنے والے افراد صرف بیس دن کے اندر اندر موت کا شکار ہوجائیں گے۔

دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اس وقت تک اتنی زیادہ دیر ہوچکی ہو کہ تمام تر حفاظتی اقدامات کے بعد بھی آب و ہوا کی تبدیلی اس زمین کے رہنے والوں پر ذرا بھی رحم نہ کھائے اور انہیں موت کے گھاٹ اتار دے۔ چناں چہ ضروری ہے کہ ابھی سے فوری اور ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں اور اس کرۂ ارض کو قیامت خیز گرمی سے اور اس کے مہلک اثرات سے بچایا جائے۔

طیاروں کی جگہ چھوٹے مقامی جیٹ استعمال کیے گئے تھے، کیوں کہ یہ جیٹ ایسے تیز گرم موسم میں بھی آسانی سے پرواز کرسکتے ہیں۔

جب تیز گرمی نے ماہر موسمیات کے سامنے سے نقشوں کے رنگ اڑا دیے
ماہرین موسمیات کا کام یہ ہوتا ہے کہ جب وہ بہت زیادہ شدید یا تیز گرمی کی نشان دہی کرتے ہیں تو اس موقع پر اپنے سامنے موجود موسمیاتی نقشے میں تیز گرمی والے مقامات یا علاقوں کو سرخ یا لال رنگ سے ظاہر کرتے ہیں۔ اسی طرح جب وہ سرد موسمی مقامات کی نشان دہی کرتے ہیں تو ان میں نیلا رنگ بھرتے ہیں۔ مگر جون 2017 میں یہ ہوا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکا کے جنوب مغربی علاقوں کا موسم اس حد تک شدید گرم ہوگیا کہ ماہرین موسمیات کے سامنے سے سرخ رنگ ہی اڑ گیا جس سے انہیں گرمی کی نشان دہی کرنی تھی۔

ہوا یوں کہ فونیکس میٹروپولیٹن کے ایک علاقے میں WeatherBELL Analytics, نے جب موسمیاتی نقشے پر گرم ترین علاقے کی نشان دہی کرنی چاہی تو اسے سرخ کے بجائے ہرے رنگ سے ظاہر کیا۔ اس حوالے سے جب ماہرموسمیات مارک ٹورے گروسا سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا:’’تمام نارنجی اور سرخ رنگ تو استعمال ہوچکے تھے، اب بہت زیادہ شدید گرمی کو ظاہر کرنے کا دوسرا مرحلہ یہ تھا کہ اس کے لیے میں اپنے اعلیٰ عہدے داران سے بنفشی رنگوں کے استعمال کی اجازت لوں، کیوں کہ سرخ رنگ اب نہیں رہا تھا۔ لیکن اتفاق سے یہ رابطہ نہ ہوسکا، جب مجھے کوئی اور دوسرا راستہ دکھائی نہ دیا تو پھر میں نے ہرا یا سبز رنگ استعمال کرلیا اور اس رنگ سے نہایت شدید گرم موسم کو ظاہر کیا۔

جب دہران، سعودی عربیہ میں درجۂ حرارت 178 ڈگری تک جا پہنچا
دنیا کے اکثر گوشوں میں ویسے تو ماضی میں بہت زیادہ درجۂ حرارت ریکارڈ کیے گئے ہیں، لیکن ان میں ماضی کا سب سے زیادہ ریکارڈ کیا گیا درجۂ حرارت 134 ڈگری فیرن ہائیٹ تھا، جو کیلی فورنیا کی ڈیتھ ویلی (وادی موت) کا تھا۔ لیکن کرۂ ارض کے رہنے والوں کے لیے اس سے بھی زیادہ سخت دن وہ آیا جب دہران، سعودی عربیہ میں یہ درجۂ حرارت 2015 میں 178 ڈگری تک جا پہنچا۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ ایسا یکایک ہونے والی ماحولیاتی اور موسمی تبدیلیاں تھیں۔

اس حوالے سے کیے جانے والے ایک ہنگامی اور فوری مطالعے کے بعد ماہرین نے اس درجۂ حرارت کو اب تک کی تاریخ کا سب سے بلند ترین درجۂ حرارت قرار دیا۔ یہ ایسی شدید ہول ناک گرمی تھی جس میں انسان کے لیے اپنا وجود برقرار رکھنا کسی معجزے سے کم نہیں۔
اس کے علاوہ دہران میں بلند ترین درجۂ حرارت کو ایک اور ریکارڈ بھی قائم ہوا تھا۔ جولائی2003 میں یہاں کا درجۂ حرارت 108 ڈگری تک جا پہنچا تھا جس میں ہوا میں نمی کا تناسب 95 تھا، جس کی وجہ سے گرمی کی شدت ناقابل برداشت ہوگئی تھی۔

قیامت خیز گرمی اور سیاحوں کا موت کی وادی میں اجتماع
یہ بات سن کر شاید آپ کو بہت عجیب محسوس ہو کہ ناقابل بیان گرم موسم میں سیاح اور شوقین حضرت وادی موت یا ڈیتھ ویلی کی طرف دیوانوں کی طرح چلے جارہے ہوں جو پہلے ہی اپنی قیامت خیز گرمی کے حوالے سے ساری دنیا میں مشہور ہے۔
یہ واقعہ بھی 2017 ہی کا ہے اور ریاست ہائے متحدہ امریکا میں پیش آیا۔

نیشنل پارک کے باہر فرنس کریک وزیٹر سینٹر میں اس وقت تھرمامیٹر 132 ڈگری درجۂ حرارت ظاہر کررہا تھا۔ بے تحاشہ گرم اور جھلسادینے والی گرمی نے ہر طرف سکوت طاری کردیا تھا، پھر ایسا نہیں تھا کہ لوگ اس سے بے خبر رہے ہوں، انہیں سوشل میڈیا کے ذریعے یہ خبریں مسلسل مل رہی تھیں کہ اس وقت ناقابل برداشت گرمی نے لوگوں کو اور مقامات کو تپتی ہوئی بھٹی بناکر رکھ دیا ہے۔ ایسے میں چند ایک دیوانوں نے نہیں، بل کہ بے شمار جنونی اور من چلے سیاحوں نے ڈیتھ ویلی کا رخ صرف اس لیے کیا تھا تاکہ وہ اس اہم اور تاریخی موقع کی عمدہ تصاویر لے کر اپنے پاس محفوظ کرسکیں۔ اس موقع پر نیشنل پارک کی ترجمان ایبے وائنز نے بتایا تھا کہ زمینی درجۂ حرارت تو اور بھی زیادہ تھا جو اس وقت 200 ڈگری تک پہنچ چکا تھا۔ اس موقع پر ایک جنونی عورت نے تو کمال کردیا تھا۔ وہ جب اپنے سینڈلوں سے محروم ہوگئی تو کوئی دوسرا راستہ نہ پاکر اسے لگ بھگ نصف میل جھلسادینے والی گرم ریت پر ریگستان میں ننگے پائوں چلنا پڑا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے دونوں پائوں بری طرح جھلس گئے اور اس کے زخموں میں ناقابل بیان تکلیف بھی ہونے لگی۔ چناں چہ ماہرین موسمیات کو فوری طور پر یہ ہدایت جاری کرنی پڑی کہ آئندہ جب کبھی آپ موسم گرما میں اس علاقے میں جائیں تو اپنی حفاظت کا پورا پورا انتظام کریں، تاکہ آپ کو مزید کسی آزمائش سے نہ گزرنا پڑے۔

جب ایرانی شہر کا درجۂ حرارت 165ڈگری تک پہنچ گیا
یہ 2015کی بات ہے کہ ایران کے ایک شہر Bandar Mahshahr میں جب طوفانی گرمی نے اپنے غیظ و غضب کا مظاہرہ کیا تو وہاں درجۂ حرارت حیران کن حد تک 165فیرن ہائیٹ تک جا پہنچا جس کی وجہ وہ heat dome تھا جو ایک بلند دبائو والا high-pressure ridge تھا جو اس وقت وہاں سے گزر رہا تھا۔ چناں چہ Bandar Mahshahr نامی ایرانی شہر کا اس وقت جو درجۂ حرارت ریکارڈ کیا گیا، وہ ایرانی خطے کا بلند ترین درجۂ حرارت تھا۔ اس وقت شدید گرمی نے لوگوں کو بدحال کرکے رکھ دیا تھا۔
انہیں اپنے گھروں سے باہر نکلتے وقت ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے گرم پانی سے بھیگا ہوا ایک تولیہ ان کے چہرے پر رکھ کر زور سے دبا دیا ہے، کیوں وہ لوگ کوشش کے باوجود بھی اس قیامت خیز گرمی سے نجات حاصل نہیں کر پارہے تھے۔ انہیں ایسا لگ رہا تھا جیسے قدرت نے دوزخ کی بھٹی کا رخ ادھر کردیا ہے۔

ایسے موقع پر جن لوگوں نے عینک پہنی تھی، ان کی عینک کے شیشوں کے اوپر دھند سی جم جاتی تھی جس سے دیکھنا مشکل بلکہ ناممکن ہوجاتا تھا، اس کے علاوہ شدید گرمی کی وجہ سے سبھی افراد بار بار پسینے میں نہارہے تھے جس سے بچنے کا ان کے پاس کوئی راستہ نہیں رہا تھا۔ مگر وہ اس ناقابل برداشت گرمی کو برداشت کرنے پر مجبور تھے۔

جب لندن کی ٹیوب نے اپنے اطراف کی زمین کو گرم کردیا
کسی زمانے میں لندن میں رہنے والے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال ابھرا کی کیا لندن کا سب وے سسٹم بھی گرم ہونے لگا ہے اور کیا کسی سائنسی یا موسمی تغیر یا تبدیلی کی وجہ سے اس نظام میں کوئی خلل پیدا ہوگیا ہے جس نے اس سسٹم کو بہت زیادہ گرم کردیا ہے؟

یہ 1900کی بات ہے کہ جب لندن کی زیرزمین سرنگوں کو جو عام طور سے مٹی سے تعمیر کی گئی ہیں، انہیں گھیرنے والی گرمی کا درجۂ حرارت عام طور سے 14 درجے سینٹی گریڈ ہوا کرتا تھا۔ ان دنوں سرنگوں سے باہر چوں کہ ہوا اور موسم ٹھنڈا ہوتا تھا، اس لیے وہ سرنگیں بھی سرد ہوا کرتی تھیں، بل کہ وہ بیرونی موسم کے مقابلے میں زیادہ سرد تھیں۔ لیکن پھر پوری ایک صدی یعنی سو سال بعد وہاں کے موسم کی کہانی میں یکایک ڈرامائی تبدیلی پیدا ہوگئی اور کبھی سرد رہنے والی سرنگیں اس حد تک گرم ہوگئیں کہ دیکھنے اور محسوس کرنے والے کافی پریشان ہوگئے اور موسم کی اس تبدیلی نے انہیں حیران کردیا۔ ہوا یوں کہ ان سرنگوں کے اندر کا درجۂ حرارت ایک دم بڑھ گیا اور اکثر یہ 20 سے25درجے سینٹی گریڈ کے درمیان پہنچ گیا۔ ماہرین نے اس صورت حال کو دیکھا اور اس کا تجزیہ کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اس شدید گرمی کا لگ بھگ 89 حصہ ان ٹرینوں سے پیدا ہورہا تھا جو ان سرنگوں میں سفر کرتی تھیں۔ اس گرمی کا بڑا سبب ٹرین کے بریکوں کی رگڑ تھی جن کی وجہ سے یہ گرمی بڑھے چلی جارہی تھی، جب کہ اس نہایت شدید گرمی کی 7فی صد وجہ مسافر تھے اور 4 فی صد سبب ٹنل سپورٹ سسٹم تھا جس کی وجہ سے یہ سرنگیں یکایک گرم ہونے لگی تھیں اور انہوں نے عام لوگوں کو اور زیرزمین سرنگوں میں ٹرینوں کے ذریعے سفر کرنے والے مسافروں کو پریشان کردیا تھا۔

شدید گرمی 2100تک ہر چار میں سے تین افراد کی جان لے سکتی ہے
ابھی تک تو ہم نے ماضی میں یا موجودہ دور میں شدید ترین اور قیامت خیز گرمی کے باؑعث ہونے والے نقصانات کی بات کی اور اپنے قارئین کے سامنے وہ ریکارڈ پیش کیے جو دنیا میں اب تک بن چکے ہیں۔ لیکن اب ہم کچھ بات مستقبل میں نہایت تیز گرمی کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کی کریں گے اور سائنسی و موسمیاتی ماہرین کے پیش کردہ خطرات اور پیش گوئیوں کا بھی جائزہ لیں گے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے گرمی کی موجودہ لہر اور مستقبل میں پیدا ہونے والی لہروں سے بچائو کے لیے کوئی حکمت عملی تیار نہ کی اور گرین ہائوس گیسوں کے اخراج کی ممکنہ روک تھام کے لیے ٹھوس بنیادوں پر منصوبہ بندی نہ کی تو ہمارا کرۂ ارض بہت بڑے خطرے میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق آنے والے زمانے یعنی 2100 عیسوی تک دنیا کے ہر چار افراد میں سے تین افراد اسی گرم وبا یا بلا کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر جائیں گے۔ یہ دعویٰ نیچر کلائمٹ چینج کی ایک رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متوقع شدید گرمی سے بچائو کے لیے اگر فوری طور پر اقدامات بھی کیے گئے تب بھی اگلی صدی کے اختتام تک صورت حال ایسی ہوجائے گی کہ شدید گرمی کے حملوں کی زد میں آنے والے افراد صرف بیس دن کے اندر اندر موت کا شکار ہوجائیں گے۔

دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اس وقت تک اتنی زیادہ دیر ہوچکی ہو کہ تمام تر حفاظتی اقدامات کے بعد بھی آب و ہوا کی تبدیلی اس زمین کے رہنے والوں پر ذرا بھی رحم نہ کھائے اور انہیں موت کے گھاٹ اتار دے۔ چناں چہ ضروری ہے کہ ابھی سے فوری اور ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں اور اس کرۂ ارض کو قیامت خیز گرمی سے اور اس کے مہلک اثرات سے بچایا جائے۔

The post آگ برسی آسماں سے appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>