Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

مشہورچہرے پہچانیے! ڈیمنشیا کی تشخیص کے لیے ایک اور مفید ٹیسٹ دریافت

$
0
0

 اگر مریض کو کسی مشہورشخصیت جیسے ایلوس پریسلے اور لیڈی ڈیانا یا کسی اور مشہور شخصیت کا چہرہ دکھایا جائے اور اسے کہا جائے کہ اس کی شناخت کرے تو اس طریقے سے اس میں خلل دماغ کی بیماری ڈیمنشیا کی قبل ازقت شناخت کی جاسکتی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ڈاکٹر اس بیماری کی تشخیص کے لیے دماغ کے ضعف کی سکریننگ کا عام طریقہ استعمال کررہے ہیں لیکن امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ چہروں کی شناخت کو بھی اس کے لیے استعمال کیاجانا چاہیے۔جریدے ’’نیورولوجی‘‘ میں شائع ہونے والی ایک اسٹڈی کے مطابق اس طریقے کے ذریعے ڈیمنشیا کے آغاز کا پتہ چلایا جاسکتا ہے۔رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے مزید تجربات کیے جارہے ہیں۔

شکاگو کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں کی جانیوالی ایک تحقیق کے مطابق جب ڈیمنشیا کے مریضوں کو بیس سے زائد مشہور شخصیات جن میں جان ایف کینیڈی ، البرٹ آئن سٹائن اور مارٹن لوتھر کنگ بھی شامل تھے، کے چہرے دکھائے گئے تو ان افراد کو اس قدر مشہور شخصیات کو شناخت کرنے میں بھی دشواری کاسامنا کرناپڑا۔شرکاء کو جو بھی چہرہ دکھایا گیااس کے بارے میں انہیں اشارے دیے گئے تا کہ وہ ان کا نام بتاسکیں۔جب وہ ان کا نام نہ بتاسکے تو انہیں کہا گیا کہ وہ تحریری مواد کو پڑھ کر ان کا نام بتادیں۔اس ٹیسٹ میں ستائیس شرکاء وہ تھے جن کو ڈیمنیشا کا عارضہ نہیں تھا جبکہ تیس اس کے مریض تھے۔ بیماری سے محفوظ شرکاء کے مقابلے میں چہرہ شناخت کرنے کے مقابلے میں مریض شرکاء کی کارکردگی بہت ناقص تھی۔

رپورٹ کے مطابق اگرچہ یہ ایک معمولی بات دکھائی دیتی ہے کہ کوئی انسان کبھی کبھی کوئی چہرہ یا نام وغیرہ بھول جائے لیکن اگر کوئی انسان ایلوس پریسلے جیسی مشہور شخصیت کو بھی شناخت کرنے میں ناکام رہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کا کوئی گہرا سبب ہے۔ڈیمنشیا کے شکار مریضوں کے جب دماغ کا سکین کیا گیا تو پتہ چلا کہ ان کے دماغ کے وہ ٹشوز متاثرہ تھے جو چہروں کی شناخت کا کام کرتے ہیں۔

اسٹڈی کے سرکردہ مصنف ٹیمر گرفن نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بہتر ہوگا کہ اس ٹیسٹ کو بھی دیگر ان ٹیسٹوں کے ساتھ شامل کیا جائے جن کو ڈیمنشیا کی تشخیص کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اس ٹیسٹ کو دیگر ٹیسٹوں کے ساتھ شامل کرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اس وقت ڈیمنشیا کے ٹیسٹوں میں کئی قسم کے جھول اور اختلافات ہیں اس لیے زیادہ سے زیادہ مختلف طریقوں کے ٹیسٹوں کو آزمایا جانا چاہیے۔ڈاکٹر پہلے ہی اس مرض کی تشخیص کے لیے مریضوں سے پوچھتے ہیں کہ وہ بتائیں کہ یہ کون سا مہینہ اور موسم ہے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ چہرہ شناخت کرنے والے ٹیسٹوں میں مشہور شخصیات کی تصاویر دکھاتے ہوئے ان کی عمر کا خیال رکھا جائے۔مثال کے طورپر پنتالیس سال کے مریض سے شاید یہ امید نہ کی جاسکے کہ وہ 1930ء کی دہائی کے کسی فلمی ستارے کا نام بتادے گا اور نہ ہی کسی اسی سالہ مریض سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ آج کل کے کسی نوعمر پاپ سٹار کا نام بتاسکے۔

ڈاکٹر ماریا جانسن جو الزائمر ریسرچ یوکے سے وابستہ ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ بات بھی اہم ہے کہ مریضوں سے تفصیل کے ساتھ بات کی جائے اور ان کی صحیح صحیح تشخیص کی جائے تاکہ وہ مناسب ترین دستیاب علاج سے فائدہ اٹھاسکیں تاہم ڈیمنشیا کی بھی مختلف اقسام ہیں اور ہر قسم کی شناخت کرنا بھی خاصا مشکل کام ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس قسم کی سٹڈیز ہوتی رہنی چاہئیں کیونکہ اس سے ہمیں پتہ چلے گا کہ ڈیمنشیا کی مختلف اقسام سے دماغ کس طرح متاثر ہوتا ہے تاہم اس کے علاوہ ہمیں اس کے لیے تحقیق کے کاموں میں بھی سرمایہ کاری کرنا ہوگی تاکہ بیماری کی بہتر اور درست تشخیص کی منزل کی جانب تیزی سے قدم بڑھائے جاسکیں۔

الزائمر سوسائٹی کی ترجمان نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے ٹیسٹ کئی قسموں کے ان ڈیمنشیا کی شناخت میں مددگار ہوسکتے ہیںجن کو بصورت دیگر نظر انداز کردیا جائے۔تاہم چہروں کی شناخت والے ٹیسٹوں سے شاید تمام اقسام کے ڈیمنشیا کی شناخت نہ ہوسکے چنانچہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ پتہ چل سکے کہ آیا ان ٹیسٹوں کو کس طرح مزید سے مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

مچھلی کھائیں ، گنٹھیا ہونے کا خدشہ آدھا رہ جائے گا
ایک بار پھر تصدیق ہوگئی کہ اچھی صحت کے لیے خوراک میں مچھلی کو لازمی شامل کریں

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہفتے میں کم ازکم ایک بار چکنائی والی مچھلی جیسے سالمن اور میکرل کھائی جائیں تو گنٹھیا لاحق کا ہونے کا خدشہ نصف حد تک کم ہوجاتا ہے۔یہ نتائج 32 ہزار سویڈش خواتین پر کی جانے والی اسٹڈی کے بعد سامنے آئے جس سے ایک بار پھر اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ اچھی صحت کے لیے خوراک میں مچھلی کو ضرور شامل ہونا چاہیے۔ محققین کے مطابق مچھلی اس لیے بھی صحت کے لیے مفید ہوتی ہے کیونکہ اس میں اومیگاتھری آئل یا فیٹی ایسڈ ہوتا ہے اور یہ وہ فیٹی ایسڈ ہے جو دل اور دماغ دونوں کی حفاظت کرتا ہے۔

گنٹھیا کے مرض کے لیے مخصوص جریدے میں شائع میں ہونیوالی تحقیق کے مطابق مچھلی اور اومیگا تھری آئل دافع ورم ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ گنٹھیا سے لڑتے ہیں۔ رپورٹ میں مزیدکہا گیا کہ ہیرنگ ، میکرل ، پلچارڈ ، سالمن ، سارڈین ، ٹراؤٹ اور ٹیونا مچھلیوں میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈ اور وٹا من ڈی بکثرت پایا جاتا ہے۔

بعض سفید مچھلیوں اور شیل فش میں بھی اومیگا تھری پایا جاتا ہے لیکن اس کی مقدار چکنائی دار مچھلیوں کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہے۔غذائی سفارشات کے مطابق ایک صحت مند متوازن خوراک میں ہفتے میں کم ازکم دو پورشن مچھلی بھی ہونی چاہیے اور اس میں ایک پورشن چکنائی والی مچھلی کا ہونا چاہیے۔ ایک پورشن چکنائی والی مچھلی کا مطلب ہے کہ پکنے کے بعد اس کا وزن ایک سو چالیس گرام تک ہوتا ہے۔

حاملہ خواتین یا وہ خواتین جو مستقبل میں ماں بننے والی ہیں ان کو ہفتے میں کم از کم دو پورشن سے کم چکنائی دار مچھلی نہیں لینی چاہیے کیونکہ اس میں آلودگی کی سطح بہت کم ہوتی ہے جو کہ جسم میں جمع ہوسکتی ہے۔مذکورہ اسٹڈی جو لگ بھگ ایک عشر ے پر مشتمل تھی ، اس میں دیکھا گیا کہ جو عورتیں ہفتے میں کم ا زکم ایک مرتبہ کسی بھی قسم کی مچھلی کھاتی رہی تھیں ان میں گنٹھیا لاحق ہونے کا خدشہ ایک تہائی تک کم ہوگیا تھا جبکہ جن عورتوں نے ہفتے میں کم ازکم ایک مرتبہ چکنائی دار مچھلی کا ایک پورشن کھایا تھا ان میں یہ خدشہ نصف حد تک کم ہوگیا تھا۔

اسٹڈی میں مچھلی کے تیل پر مشتمل سپلیمنٹ کی بات نہیں کی گئی لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بھی مفید ہوسکتے ہیں۔آرتھرائٹس ریسرچ یوکے کے میڈیکل ڈائریکٹر پروفیسر ایلن سلمین نے اس سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مختلف شواہد ملنے کے بعد ہم یہ جان چکے ہیں کہ جن افراد میں متحرک گنٹھیا ہے وہ مچھلی کا تیل لیکر اس کی شدت کو خاصی حد تک کم کرسکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسٹڈی سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ مقدار میں مچھلی کا تیل لینے سے جوڑوں میں ورم کو ابتداء میں ہی کنٹرول کیاجاسکتا ہے۔ تاہم اس میں ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ ایسا کرنے کے لیے خوراک میں بڑے پیمانے میں تبدیلی کرنا ہوگی۔رپورٹ میںبتایا گیا کہ دنیا میں اس وقت کروڑوں کی تعداد میں افراد جوڑوں کی تکلیف دہ بیماری گنٹھیا میں مبتلا ہیں۔یہ بیماری جیسے جیسے بڑھتی ہے دفاعی نظام جوڑوں پر حملہ آور ہوتا ہے اوران کو سخت اورسوجا ہوا کرکے شدید تکلیف کا باعث بنادیتا ہے۔

چین میں ادویہ ساز کمپنیوں نے رشوت کو معمول بنالیا
ادویات کی فروخت کے لیے رشوت دیتی ہیں اور رشوت کا پیسہ قیمتیں بڑھا کر پورا کیا جاتا ہے

بی بی سی کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ چین میں کام کرنیوالی دوا ساز کمپنیوں کا معمول ہے کہ وہ حکام کو رشوت دیتی ہیں۔پانچ ادویاتی سیلز مینوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی کمپنیاں اپنی ادویات کی فروخت بڑھانے کے لیے رشوت سے کام لیتی ہیں۔ان میں سے کسی بھی سیلز مین نے اپنا نام نہیں بتایا کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ ایسا کرنے کی صورت میں انہیں اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔

یہ انکشاف ایک ایسے موقع پر سامنے آیا جب چینی حکومت ایک بڑی ادویہ ساز کمپنی کی جانب سے رشوت کے استعمال کا سکینڈل سامنے آنے کے بعد ادویات کی قیمتوں کے تعین کے حوالے سے تحقیقات میں مصروف ہے۔ایک سیلز مین نے بتایا کہ اس کمپنی نے ایک ہسپتال میں اپنی دوا کا دوبارہ استعمال کرنے کے لیے ایک ہزار ڈالر رشوت دی۔سیلز مینوں نے بتایا کہ اگر کمپنی رشوت نہ دے تو اسے ادویات کی فروخت کے حوالے سے زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ایک اور سیلز مین نے بتایا کہ وہ اس بات کی تردید نہیں کرے گا کہ غیر ملکی کمپنیاں اپنی ادویات کی فروخت کے لیے ڈاکٹروں کو رشوت دیتی ہیں۔اس نے مزید کہا کہ ایسا بہت کم ہوتاہے اور بہت کم ڈاکٹر رشوت لیتے ہیں کیونکہ چین میں رشوت کی سزا بہت سخت ہے۔

اس نے ایک مثال دی کہ کس طرح ایک ہسپتال کی انتظامیہ نے اس کی کمپنی کی دوا کو اپنے ہسپتال کی لسٹ سے خارج کردیا جو کہ اس کے لیے اور اس کی کمپنی کے لیے بہت شرمندگی کی بات تھی۔اس نے بتایا کہ اگر ہم اپنی دوا دوبارہ ہسپتال کی لسٹ میں شامل کرنے کے لیے معمول کاطریقہ کار اختیار کرتے تو اس میں بہت زیادہ پیسہ اور توانائی خرچ ہوتی۔ لہٰذا انہوں نے تیز طریقہ یعنی رشوت کا استعمال کیا۔

اس نے مزید بتایا کہ ہسپتال کے شیلفوں میں کمپنی کی دوا دوبارہ پہنچانے کے لیے جو پیسے دیے گئے وہ یقینی طورپر رشوت تھی اور کمپنی کے منیجر نے بھی اس کی منظوری دی تھی۔اس نے کہا کہ اگر ہم ایسا نہ کرتے تو ہمیں اور بھی زیادہ پیسے خرچ کرنا پڑتے اور بے شمار توانائی الگ خرچ ہوتی۔اس نے کہا کہ جیسے اور بہت سے کاموں کو جلدی سے مکمل کرانے یا فائلیں جلد ازجلد کلیئر کرانے کے لیے رشوت دی جاتی ہے، اسی طرح ادویات ساز کمپنیاں بھی اپنے مفاد کے لیے رشوت کو استعمال کررہی ہیں۔

یاد رہے کہ چینی پولیس نے گذشتہ ماہ ایک بڑی ادویات ساز کمپنی پر الزام لگایا تھا کہ وہ چین میں ’’مافیا‘‘ کی طرح کام کررہی ہے۔اس پر الزام عائد کیا گیا کہ اس نے مختلف ہسپتالوں اورڈاکٹروں کو 320 ملین پاؤنڈ رشوت دی اوراس کے لیے ٹریول ایجنسیوں کو استعمال کیا۔ فرم کے ایک زیرحراست چینی ایگزیکٹو نے سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ اس کی کمپنی نے جو رشوت دی اس کی وجہ سے ادویات کی قیمتو ں میں ایک تہائی کااضافہ ہوگیا۔ مذکورہ ادویات ساز کمپنی نے کہا ہے کہ وہ تحقیقات میں چینی حکام سے تعاون کررہی ہے۔یاد رہے کہ اس عشرے کے اختتام تک چین میں ہیلتھ کیئر پر اخراجات دوگنا ہونے کا امکان ہے۔تحقیقات کے ذریعے رشوت جیسے مسئلے پر قابو پاکر ادویات کی قیمتوں میں اضافے کو روکا جاسکتا ہے۔


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>