اوراق منتشر
مصنف: عاطف ملک، قیمت:750 روپے، صفحات:343
ناشر:الفیصل ناشران و تاجران کتب، غزنی سٹریٹ، اردو بازار، لاہور(04237230777)
اپنے خیالات ، زندگی میں پیش آنے والے واقعات یا مشاہدات تحریر کی صورت میں پیش کرنا بڑی فنکاری کا کام ہے، کیونکہ ان منتشر چیزوں کو منظم کرنا اور ترتیب دینا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب بھی ایسی ہی تحریروں کا مجموعہ ہے۔ مصنف نے بڑی خوبصورتی سے اپنی بات کہی ہے ، رواں ، شستہ اور دلچسپ انداز تحریر قاری کو ایک کے بعد ایک تحریر پڑھتے چلے جانے پر مجبور کر دیتا ہے۔مصنف کا روزنامہ ایکسپریس کے سنڈے میگزین میں اندلس کا سفرنامہ سلسلہ وار شائع ہوچکا ہے۔
محمد حسن معراج کہتے ہیں ’’ وقت معلوم کے کنوئیں سے نامعلوم کی دریافت کرتا ہے۔ یہ اپنی سرشت میں آدم زاد پہ ایسی واردات کر جاتا ہے کہ جس کا سراغ ڈھونڈھتے آدھی عمر گزر جاتی ہے اور باقی آدھی اس کا نشان مٹاتے۔ عاطف ملک ملکوں ملکوں نہیں پھرے، سماج سماج رہے ہیں ۔
ان کی باتیں، باتوں سے زیادہ کہانیوں کا رنگ لیے ہوئے ہیں ۔ یہ قصے اس لیے بھی اہم ہیں کہ ان سے ہمیں وقت کی واردات کا سراغ ملتا ہے۔ اشفاق احمد کی تاثیر سے عظیم صاحب کی تعبیر اور ٹنڈو آدم سے آسٹریلیا تک پھیلی یہ کہانیاں ، شائد ہند سندھ کے پرانے قلعوں کی روبہ زوال دیواریں ہیں جن پہ لوگوں کے ادھورے نشان ملتے ہیں۔‘‘ اسی طرح ناصر عباس نیئر لکھتے ہیں ’’ عاطف ملک نے متفرق موضوعات پر لکھا ہے۔
اس سے ان کی دلچسپیوں کے دائرے کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔آپ نے شخصیات ، سماجی و نفسیاتی مسائل اور رویوں، فکری مسائل ، روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے واقعات اور ان کی سماجی معنویت پر لکھا ہے۔ شخصیات میں کچھ تو یادگار کرداروں میں ڈھل گئی ہیں ، جیسے ماں جی۔ آپ نے ہر جگہ رواں ، صاف ، سلیس اور بامحاورہ دل کش زبان تو برتی ہے ، تاہم کسی ایک صنف کی پابندی اختیار نہیں کی۔ افسانہ مضمون ، خاکہ ، کالم، ڈراما، یادنگاری ، تبصرہ جیسی اصناف کو بہ یک وقت مگر حسب ضرورت برتا ہے۔
اس بناء پر ان تحریروں میں مختلف مزاج اور ذوق کے حامل قارئین کی دلچسپی کا سامان ہے۔ سب تحریروں میں سماجی تنگ نظری، ہوس ، ناانصافی اور دیگر اخلاقی برائیوں کو سلیقے سے اجاگر کرنے اور خیر کی اقدار کو سامنے لانے کی قابل قدر کوشش ملتی ہے۔‘‘ کتاب کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلے حصے میں افسانے اور قصے، دوسرے حصے میں خاکے اور یادیں، تیسرے حصے میں طنز و مزاح اور چوتھے حصے میں متفرق تحریریں شامل ہیں۔ بہت دلچسپ کتاب ہے ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔
خالی سڑک
مصنف: خواجہ آفتاب حسن، قیمت:500، صفحات:144
ناشر: سانجھ پبلیکیشنز، بک سٹریٹ مزنگ روڈ، لاہور(3334051741)
یہ خواجہ صاحب کا تیسرا ادبی شہ پارہ ہے اس سے قبل بھی وہ دو کتابیں ادبی دنیا میں پیش کر چکے ہیں ’ جگ بیتیاں ‘ اور ’فنکاریاں ‘ دونوں کتابوں نے ادب میں اپنا حصہ ڈالا اور قارئین نے دونوں کو پذیرائی بخشی ۔ زیر تبصرہ کتاب کے افسانے بھی دل کو چھو لیتے ہیں بلکہ دلگیر کر دیتے ہیں کیونکہ ہر افسانہ اور کہانی کسی ایسے اختتام کو پہنچتی ہے کہ قاری کردار کے کرب کو محسوس کرتا ہے جیسے ’خالی سڑک‘ افسانے کے کردار نے دنیا کی بھیڑ بھاڑ میں تنہائی کا جو رونا رویا ہے وہ اس بھاگتے دوڑتے وقت میں ہر کسی پر بیت رہی ہے، اسی طرح’ اکھاڑا ‘ میں پپو کن ٹٹے کی کہانی ایسی ہے جیسے وہ ہمارے پڑوس میں رہنے والا کوئی کردار ہو ، جس طرح وہ اپنے بزرگوں کی نشانی کو بدمعاشی کا اڈہ بنا دیتا ہے اور قبضہ مافیا کا ایک بڑا پرزہ بن جاتا ہے پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہی اکھاڑا قبضہ مافیا اس سے چھیننے کی کوشش کرتا ہے تب اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کی طرز چھوڑ کر کس طرف چل پڑا تھا، وہ غم و اندوہ میں ڈوب چکا تھا تب وہ اس اکھاڑے کو آباد کرنے کی پھر سے کوشش کرتا ہے مگر گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا، جوانی نے ادھیڑ عمری پر دستک دیدی تھی مگر اس نے اکھاڑے کی پتھر کی طرح سخت ہو جانے والی مٹی کو نرم کرنے کیلئے کندھوں پر رسی لپیٹی اور سہاگہ پھیرنا شروع کر دیا ، مگر دل نے ساتھ نہ دیا اور اتنی سخت کسرت نے اس کی جان لے لی، یوں اکھاڑے کی مٹی کو چومنے والا پپو اسی مٹی پر جان دے گیا۔ اسی طرح ہر افسانہ قاری کو اپنے ساتھ باندھے رکھتا ہے۔ معروف ادیب اظہر غوری کہتے ہیں ’’ خالی سڑک‘ کے افسانہ نویس خواجہ آفتاب حس نے اپنے ماحول کی صورت حال کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ کرداروں کی نجی حساسیت اور انفرادی کرب کی عکس بندی کرنے کے علاوہ معاشرتی اور تہذیبی اقدار کی تفتیش نگاری کا فریضہ بھی انجام دیا ہے۔ اسلوب کے اعتبار سے ان حقیقت پسندانہ اور بیش از حقیقت موضوعات کا بیش تر انجام ہی آغاز ٹھہرتا ہے۔ افسانوں کے مجموعی و مرکزی دھارے میں موجود کرداروں پر دوربین مرتکز کر کے افسانہ نگار نے خودشناسی کے مراحل طے کرتے ہوئے معاصر کاروبار حیات کا تناظر قائم کیا ہے۔ یوں یہ مجموعہ مسلسل ترقی پذیر متحرک کہانیوں کی عمدہ نظیر ہے۔‘‘ کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے، ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے خوبصورت تحفہ ہے ۔
ذکر اْس پَری وَش کا (ڈرامہ)
مصنف: جارج برنارڈ شا، قیمت: 999 روپے
ناشر: بک کارنر،جہلم، برائے رابطہ :03215440882
جارج برنارڈشا کا کہنا تھا ’جو کچھ آج سٹیج پر ہو رہا ہے، کل آپ کے گھر اور معاشرے میں ہوگا۔‘ ولیم شیکسپیئر کے بعد سب سے بڑے برطانوی ڈرامہ نگار کی اس بات کی بنیاد پر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں، تو سو فی صد حقیقت لگتی ہے۔ انھوں نے جتنے ڈرامے لکھے، بالخصوص جو آج بھی مشہور ہیں، وہ اسی نقطہ نظر سے لکھے کہ ان کے ذریعے معاشرے میں سدھار پیدا ہو۔ وہ عجب شخصیت کے مالک تھے، ایسی شخصیت جسے ہمہ جہت کہا جاتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بعض نقاد انھیں تضادات سے بھرا ادیب بھی قرار دیتے ہیں۔
برنارڈ شا نظریاتی طور پر اشتراکی بھی لگتے تھے لیکن وہ اشتراکی انقلاب کے حامی نہیں تھے۔ اگرچہ لوگ برنارڈ شا کی شخصیت کو تضادات کا مجموعہ قرار دیتے ہیں تاہم یہ درست نہیں۔ ممکن ہے کہ وہ پختہ فکر ہونے کے باوجود مخمصوں کے شکار رہے ہوں تاہم ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ جس سچائی کی تلاش میں تھے، وہ انھیں کہیں بھی بہترین انداز میں نظر نہ آئی ہو۔ وہ ایک ایک نظریہ کھنگالتے جا رہے ہوں لیکن ہر جگہ انھیں کچھ دیگر مسائل بھی دیکھنے کو ملتے ہوں۔شاید ان کی حیات و افکار کی اس تشکیل کے پیچھے ان کے خاندانی حالات اور سابقہ زندگی کی مشکلات کا بھی عمل دخل ہو۔ مثلاً ان کے والد ایک ناکام تاجر تھے۔ ظاہر ہے کہ بیٹا باپ کی مسلسل ناکامیاں دیکھ کر شکستہ دل ہوا۔ضروری تعلیم کے بعد جارج برنارڈ شا نے روزگار کے چکر میں کچھ کام کیے، پھر کلرکی بھی کی۔ اسی دوران وہ اپنے طور پر مزید تعلیم بھی حاصل کرتے رہے۔ کچھ عرصہ بعد ان کے والدین کے مابین ناچاقی ہوگئی، برنارڈشا کی والدہ بیٹیوں سمیت آئرلینڈ سے لندن چلی گئیں۔ جلد ہی برنارڈشا بھی ان کے پاس پہنچ گئے۔ اس کے بعد ان کی زندگی عسرت ہی میں گزری۔ ٹیلی فون کمپنی میں ملازمت سمیت بہت سے کام کیے لیکن کوئی کام بھی جم کر نہ کرسکے۔ بعد کی زندگی میں انھوں نے افسانہ نگاری، ناول نگاری بھی کی، تنقید بھی اور سیاست میں بھی حصہ لیا لیکن کہیں بھی بڑی کامیابی نہ سمیٹ پائے۔
آنے والے برسوں میں ان کی سب سے بڑی پہچان ڈرامہ نگاری ہی بنی۔ جارج برنارڈ شا نے پچاس سے زائد سٹیج ڈرامے لکھے۔ پہلے وہ ناول نگاری کرتے رہے، لیکن انھیں بہت زیادہ پذیرائی نہ ملی۔ پبلشرز بڑی مشکل سے ان کے ناول چھاپنے کو تیار ہوتے تھے۔ نتیجتاً وہ ڈرامہ نگاری کی طرف آگئے۔ بارہ برس تک اس میدان میں جدوجہد کی، اس کے باوجود ان کے ڈراموں کو انگلستان میں بہت زیادہ مقبولیت نہیں ملی۔ البتہ ان کے موضوعات پر لوگ بحث ضرور کرتے تھے۔ جیسے جیسے وقت گزرا، لوگ برنارڈشا کے کام کے معترف ہونے لگے۔ انیس سو پچیس میں انھیں نوبل انعام برائے ادب ملا۔ انیس سو اڑتیس میں بہترین مکالمہ نگاری پر اکادمی انعام عطا ہوا۔ زیر نظر ڈرامہ ’دی میلینائریس‘( ذکر اس پری وش کا) انیس سو چھتیس میں لکھا گیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس کا جرمن زبان میں ترجمہ ہوا، یہ سب سے پہلے ویانا کے اکادمی تھیٹر میں پیش کیا گیا۔ اس کے بعد انگریزی زبان میں ملبورن( آسٹریلیا) میں چلا، اس کے بعد لندن والوں کو اس کی خبر ہوئی۔ پھر پورے انگلینڈ کے مختلف تھیٹروں میں اس کی نمائش ہوئی۔ انیس سو ساٹھ میں ’دی میلینائریس‘ پر فلم بنی۔ اس میں صوفیہ لورین اور پیٹر سیلرز نے کام کیا۔ یہ فلم اپنے دور کی مقبول ترین فلموں میں سے ایک تھی۔
ایپی فینیا، ایک امیر کبیر خاتون اس کہانی کا مرکزی کردار ہے کو اپنی ساری جائیداد، سب کچھ اپنے شوہر کے نام کرنا چاہتی ہے جسے وہ احمق اور بدمعاش قرار دیتی ہے۔ اور سب کچھ اس کے نام کرکے خودکشی کرنا چاہتی ہے۔ یقیناً یہ پڑھ کر حیران ہوں گے کہ خاتون ایسا کیوں کرنا چاہتی ہے؟ ظاہر ہے کہ آگے چل کر اس سوال کا جواب بھی ملتا ہے اور سارے سبق بھی جو برنارڈشا سکھانا چاہتے تھے۔ ’بک کارنر‘ اب تک عالمی ادب کے زمرے میں بہت کچھ شائع کر چکا ہے۔ اس میں جارج برنارڈشا کا یہ ڈرامہ ایک شاندار اضافہ ہے۔ ڈرامہ کا دیباچہ خاصے کی چیز ہے جس کے مطالعہ کے بعد ڈرامہ کی تفہیم بہت آسان ہو جاتی ہے۔ جناب شاہد احسان خالد نے عمدہ ترجمہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مختلف کلچر سے تعلق رکھنے والا ڈرامہ پڑھتے ہوئے قاری کو ذرا مشکل پیش نہیں آتی بلکہ لطف حاصل ہوتا ہے۔ ( تبصرہ نگار: عبید اللہ عابد)
جیو جانی
مصنف: عارف انیس، قیمت: پندرہ سو روپے
ناشر: بک کارنر، جہلم، رابطہ: 03215440882
آپ اس شخص کے بارے میں کیا کہیں گے جو پاکستان کی وادی سون سکیسر کے ایک دور افتادہ، سنگلاخ علاقے میں پیدا ہو، نفسیات اور بزنس ایجوکیشن میں تعلیم حاصل کرے، سول سروس آف پاکستان میں 29 کامن میں منتخب ہو، پھر فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں ڈپٹی کمشنر کے طور پر کام کرے۔ اور پھر ایک دن سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر برطانیہ چلا جائے۔ پھر ایک دن ایسا بھی آئے کہ وہ شخص دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں اور کارپوریٹ تقاریب میں خطاب کرنے لگے۔ لاکھوں افراد اس کی گفتگو سنیں اور اپنی زندگیاں تبدیل کر لیں۔ برطانیہ کا بادشاہ اسے ’ممبر آف دا موسٹ ایکسیلنٹ آرڈر آف دا برٹش ایمپائر‘ کے شاہی اعزاز سے نوازے۔ اسے برطانیہ کے 100موثر ترین لوگوں کی فہرست میں شامل کر لیا جائے۔
وہ ایک پاکستانی شخص ہے، عارف انیس، زیر نظر کتاب کے مصنف۔ یہ ان کی کامیابی کی ایک حیرت انگیز داستان ہے۔ لیکن اس سے زیادہ حیران کن معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنی کچھ دیر کی گفتگو سے لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب بپا کر دیتے ہیں۔ میں نے انقلاب کا لفظ لکھا ہے، جوش و ولولہ پیدا کرنے کی بات نہیں کی۔ جوش و ولولہ بعض اوقات وقتی جذبہ بھی تو ثابت ہوتا ہے۔جناب عارف انیس نے ایک محفل میں صرف آدھ گھنٹہ ہی میں ایک برطانوی موسیقار لڑکی ’لارا‘ کو شوق سے مکڑی ہاتھ میں لینے پر تیار کر لیا تھا حالانکہ وہ آدھ گھنٹہ پہلے مکڑی یا کیچوے کو پکڑنے کے خیال ہی سے دہشت زدہ ہو جاتی تھی۔ عارف انیس کے محض آدھ گھنٹے کے سیشن کے بعد ’لارا‘ نے اٹھارہ فٹ طویل اژدھے کو گلے میں ڈال لیا ۔ اور اس کی تصویر بنوا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر رہی تھی۔
عارف انیس لوگوں کے اندر جذبہ ابھارنے، انھیں قائل کرنے کے لیے محض لفظوں کی جادوگری نہیں کرتے بلکہ سچے واقعات، سچی کہانیوں اور زندہ مثالوں سے دل و دماغ کی دنیا بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اس کوشش میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے سننے والوں اور پڑھنے والوں کو قائل کر لیتے ہیں کہ جس حال میں جینا مشکل ہو، اس حال میں جینا لازم ہے۔ نیویارک ٹائمز بیسٹ سیلر اور گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ یافتہ مصنف جیک کین فیلڈ نے کہا تھا’ جو لوگ اپنی زندگی بدلنا چاہتے ہیں، عارف انیس کا لکھا اور بولا گیا ان کے لیے اکسیر ہے۔‘ مس یورپ اور مس ورلڈ رنر اپ سٹیفنی ہل کا کہنا ہے’ عارف انیس نے مجھ سمیت ان گنت لوگوں کی زندگیوں کو انسپائر کیا اور انھیں، ان کا بہترین ڈھونڈنے میں رہنمائی کی۔‘ عارف انیس آج کل تھاٹ لیڈر اور سب سے مہنگے پروفیشنل کوچ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ اس لیے اگر آپ کے ذہن میں خیال پیدا ہو رہا ہے کہ جب کبھی وہ پاکستان آئیں گے تو ان کا لیکچر سن لیں گے اور اپنی زندگی بدل لیں گے۔ بہتر ہے کہ اس خیال کو دماغ سے نکال دیں۔ اس سے بدرجہا سستا ہے کہ آپ کتاب ’جیو جانی‘ پڑھ لیں۔ اس میں آپ کو وہ سب کچھ مل جائے گا جو ان کے بیسیوں لیکچرز میں ہوتا ہے۔
اگر آپ خوفزدہ ہیں تو یہ کتاب آپ کو نڈر اور دلیر بنا دے گی۔ اگر آپ نیچے گرے ہوئے ہیں، یہ آپ کو کھڑا کر دے گی۔ اگر آپ شکست خوردہ ہیں تو یہ آپ کو معاشرے کا سب سے کامیاب شخص بنا دے گی۔ یہ کتاب اپنے بچوں کو پڑھائیے، وہ آپ کے لیے قابل فخر بن جائیں گے۔ آزمائش شرط ہے۔
دھوپ میں لوگ
مصنف : غسان کنفانی، مترجم : شاہد حمید
فلسطینی مسلمانوں کا بے گھر ہونا، ان کے زیتون کے باغات کا اجڑنا، وطن ہوتے ہوئے بے وطنی کی زندگی گزارنا اور جلاوطن لوگوں کو واپس آنے سے روکا جانا ایک بانگِ استعمار کا تسلسل ہے ۔ اور یہ ہی صورت حال استعماری پشت پناہی کے خمار میں اسرائیل کے فلسطین پر مکمل قبضے کا مظہر ہے۔ اسرائیلی جارحیت نے سر زمین فلسطین پر ایک عرصے کے بعد دوبارہ سرخ فاموں کی سی نسل کشی کی یاد تازہ کردی۔ اور غسان کنفانی اسی فطرتی امر کا بھرپور اظہار ہیں جو مزاحمت کے وقت ظاہر ہوتا ہے۔ غسّان ایک صاف دل و صاف گو فلسطینی عرب تھے جنھوں نے اس سویرے میں آنکھ کھولی جب ان کی قوم کی غلامی کا گویا آغاز ہو چکا تھا۔ مگر وہ مزاحمت کا استعارہ بن کر ابھرے اور اپنے شاہ کار قلم اور بے مثل عمل سے مزاحمت کی ایک تاریخ رقم کر گئے۔ ان کے قلم نے عربی ادب کے کئی غیر معمولی فن پارے تخلیق کیے۔ اور انہوں نے اپنی صحافت کے ذریعے اپنی قوم کے موقف کی مکمل اور مدلل نمائندگی کی۔
عکا کے قصبے پر صیہونی فوجوں کے قبضے کے بعد انھوں نے پہلے جنوبی لبنان اور پھر دمشق کے نواحی پہاڑوں میں سکونت اختیار کی۔ یہی وہ تجربہ ہے جس نے ان کی افسانوی کائنات کو رنگ روپ دیا۔ کچھ وقت دمشق میں رہنے کے بعد وہ کویت چلے گئے اور وہاں پڑھاتے رہے۔ 1959ء میں وہ بیروت آ گئے اور آزادیء فلسطین کے لیے کام کرنے والی جماعت ’’پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف پیلسٹائن‘‘ (PFLP) کے ترجمان بن گئے۔ تبھی انھوں نے ’’الہدف‘‘ نامی روزنامہ اخبار کا اجرا کیا اور موت تک اس کے مدیرِ اعلٰی رہے۔
حالات سازگار نہ ہونے کی وجہ سے وہ 1962ء کے اوائل میں ’’زیرِ زمین‘‘ جانے پر مجبور ہو گئے۔ روپوشی کے ان ایام کے دوران انھوں نے اپنا معرکہ آرا ناول ’’رجال فی الشمس‘‘ تحریر کیا اور اسے اپنی اہلیہ اینی کے نام منسوب کیا۔ جب اگلے سال اس کی اشاعت عمل میں آئی تو عربی ادب کی دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔ 1973ء میں مصری فلم ڈائریکٹر توفیق صالح نے غسّان کے اس ناول پر ’’المخدوعون‘‘ نامی فلم بنائی جس کی نمائش پر کئی عرب ممالک میں پابندی لگا دی گئی۔ 1978ء میں یہ ناول Men in the Sun, کے نام سے انگریزی میں ترجمہ ہوا۔ شاہد حمید نے اس کا اْردو ترجمہ ’’دْھوپ میں لوگ‘‘ کے عنوان سے کیا۔ یہ ترجمہ سب سے پہلے ’’محراب‘‘ لاہور میں شائع ہوا اور بعد ازاں کتابی شکل میں بھی چھپا۔ اس کا نیا ایڈیشن بک کارنر نے شائع کیا ہے۔
غسّان کنفانی گزشتہ صدی کے اہم ترین عرب مصنفین اور صحافیوں میں شامل ہیں۔ ان کے ناول، کہانیاں اور ادبی تحریریں عرب اور فلسطینی ثقافت میں رچی بسی ہیں۔ ان کے چھ ناول، کہانیوں کے پانچ مجموعے، تین ڈرامے اور فلسطینی ادب کے دو مطالعے شائع ہو چکے ہیں۔ سیاسی سرگرمیاں، اخباروں کی ادارت، کالم نگاری، مصوری و پوسٹر سازی اس کے علاوہ ہیں۔ ان کے مسودات میں سے ملنے والی کْل تصنیفات جو اَب تک چَھپ چکی ہیں ان کی تعداد اٹھائیس تک جا پہنچی ہے۔ ان کی تخلیقات کے بیس مختلف زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں۔ کچھ کتابیں سکولوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں بھی شامل ہیں۔
” دھوپ میںلوگ ” دراصل تین جلا وطن فلسطینیوں کی کہانی ہے۔ وہ ایک چوتھے کے ساتھ سودا کرتے ہیں کہ وہ انھیں عراق سے کویت میں سمگل کرا دے گا ، جس کے متعلق عام شہرہ تھا کہ وہاں روزگار کی فراوانی ہے۔ تینوں ایک ٹینک میں چھپ جاتے ہیں۔ جب ڈرائیور کو جس کی زندگی تلخی سے عبارت تھی، سرحدی چوکی پر روکا جاتا ہے تو ٹرک کے اندر موجود تینوں اشخاص کڑاکے کی دھوپ میں دم گھٹنے سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ وہ چیختے چلاتے اس لیے نہیں کہ کہیں باہر کی دنیا کو ان کی موجودگی کا علم نہ ہو جائے اور یوں وہ ان کی نظروں میں نہ آ جائیں۔ ڈرائیور اذیت ناک انداز میں چلا چلا کر پوچھتا ہے
“تم لوگوں نے ٹینک کے پہلوؤں کو کیوں نہ کھٹکھٹایا, کیوں ؟”
اس سوال کی گونج سارے صحرا میں سنائی دی اور یہ ہی وہ گونج تھی جو پوری فلسطینی قوم کے کانوں سے یوں ٹکرائی جیسے کسی نے ان کو مشتعل کر دیا ہو۔
اس واقعے کی بازگشت پوری فلسطینی قوم میں سنی گئی، انھوں نے نہ صرف فلسطینی زندگی بل کہ ادب کو بھی بہت متاثر کیا۔
The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.