اس کا نام ہی اس ہستی کے نام نامی پر رکھا گیا تھا جسے ’’ذبح اﷲ‘‘ ہونے کا شرف حاصل ہے۔
جی! اس باپ کا بیٹا جسے ’’ابراہیم خلیل اﷲ‘‘ کہا گیا، وہ جو آتش نمرود میں بے خطر کود پڑا تھا اور عقل محو تماشا تھی۔ ابراہیم خلیل اﷲ کا چہیتا فرزند اسمٰعیل ذبیح اﷲ۔
یہ نسبت بھی کیا کمال ہے، انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہے ناں۔
وہ بھی اسمٰعیل ہانیہ تھا، جو آگ و خون میں پروان چڑھا تھا۔ اور پھر راہ خدا میں بہ رضا و رغبت قربان ہوگیا۔ وہ اکیلا ہی نہیں اس کا پورا کنبہ۔ دوریزید میں اصل افکار حسینی پر کاربند اور پھر اس نے امام حسینؓ کی
پیروی میں اپنے پورے کنبے کو راہ حق میں لٹا دیا اور مسکراتا رہا۔
جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے، جنگ تباہی لاتی ہے، بربادی لاتی ہے، آرزوؤں اور خوابوں کو قتل کرتی ہے، زمین کی کوکھ اجاڑتی ہے، قبرستان آباد کرتی اور جینے کو مار دیتی ہے۔ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ یہ کسی کو بھی نہیں دیکھتی۔ ہر سانس میں زہر بن کر اترتی اور اسے مٹی میں ملا دیتی ہے۔ کھیت کھلیانوں کو جلا کر بھسم کر دیتی اور شہروں کو برباد کرتی ہے۔
بارود بے حس ہوتا ہے، بے شعور ہوتا ہے، وہ کسی کی بھی پروا نہیں کرتا، اس کا کام تباہی پھیلانا ہے۔ وہ موت بانٹتا ہے۔ آگ تو پھر آگ ہی ہے۔ جلا دینا اس کا کام ٹھیرا۔ جنگ نسلوں کو برباد کرتی، بچوں کو یتیم اور عورتوں کو بیوہ کرتی ہے۔ جی جناب! جہاں بم گریں وہاں زمین سبزہ و گل سے محروم ہو جاتی ہے۔ جنگ قحبہ گری اور افلاس لاتی ہے۔ انسان کو شرفِ انسانیت سے محروم کرتی ہے۔ جنگ خوں خواروں کی آرزو ہے۔ جنگ بے حسوں کا خواب ہے۔ جنگ مردم بے زار لوگوں کا جنون ہے۔ جنگ خوابوں کا مقتل ہے۔ جنگ کبھی کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی۔ وہ بھوک و افلاس، معذوری اور دکھ لاتی ہے، خوشیوں سے محروم کرتی اور امیدوں کو دفن کرتی ہے۔
جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ہم سب کو پُرامن رہنا چاہیے۔ امن خوشیوں کی نوید ہے، امن نغمۂ مسرت ہے، امن مژدۂ جاں فزا ہے، امن خواب ہے اور امن تعبیر بھی۔ آرزوؤں اور امنگوں کا موسم بہار ہے امن۔ امن ہی شرفِ انسانیت ہے، امن راحتِ جاں ہے، امن چین کی بانسری ہے، لَے ہے، شہنائی ہے امن، پرسکون نیند ہے امن۔ امن ہی انسانیت کی ضرورت ہے۔ امن ضروری ہے، ازبس ضروری۔ سانس کی طرح، جس سے تارِ زندگی بندھا ہوتا ہے۔ امن ہی گیت ہے اور امن ہی سنگیت۔ بس امن۔
لیکن میرے یہ خوب صورت الفاظ، میرے خوب صورت خواب، میرے نغمے، میرے گیت، میرے افسانے، میری آرزوؤں اور امنگیں، میری غزلیں اور میری نظمیں جنگ کو روک سکتی ہیں؟ اور اگر نہیں، تو پھر مجھے یہ سب کچھ کرنا چاہیے؟ مجھے آپ سے یہ پوچھنا ہے۔
جب میں ظالم کو ظالم کہوں گا تو کیا جنگ نہیں ہوگی؟ اور اگر میں جنگ کے خوف سے ظالم کو ظالم کہنا چھوڑ دوں تو پھر سماج کیسا ہوگا؟ کیا زندگی صرف سانس کی آمدورفت کا نام ہے؟ ایسے میں پھر ہم کیا کریں؟ اور اگر باہر سے امن اور میرے اندر جنگ شروع ہو جائے تب مجھے کیا کرنا چاہیے؟ سوالات کا ایک انبار ہے، اور جواب بھی شاید ہوں۔ لیکن وہ جوابات ان سوالات کو آسودہ کرسکتے ہیں؟ پوری دنیا پر زرپرست امن دشمنوں کا راج ہے جو صرف اپنے مفادات کے اسیر ہیں۔
انسان طاقت ور کیوں ہونا چاہتا ہے؟ واصف علی واصف نے لکھا ہے:’’طاقت ایک مبہم لفظ ہے۔ اس کے معنی صرف استعداد یا قدرت ہی کے نہیں۔ اس کا مفہوم خوف پیدا کرنا بھی ہے۔ اگر خوف زدہ انسان بے خوف ہوجائے تو طاقت کم زور ہونا شروع ہوجاتی ہے، طاقت دراصل خوف کی حدود میں بادشاہی کرتی ہے، لاخوف کے مدار میں طاقت کا گزر ممکن نہیں۔ طاقت جسے خوف زدہ کرنا چاہتی ہے دراصل خود اس سے خائف ہوتی ہے۔ طاقت انسان کو اپنے قد، اپنی حد سے باہر نکل کر دوسروں کو پست قامتی پر مجبور کرتی ہے۔ لوگ اپنی دولت، اپنا وقت، اپنی عمر اور اپنی عاقبت خراب کرکے بھی دوسروں کو خوف زدہ کرنے سے باز نہیں رہتے۔ اگر خوف پیدا کرنے کے عمل کو ترک کر دیا جائے تو یہ دنیا جنت بن سکتی ہے۔
اپنے اسلحے کی فروخت کے لیے پوری دنیا جنگی جنون میں مبتلا کردی گئی ہے۔ نظامِ زر طاقت کے ذریعے انسانیت کو زیر کرنا چاہتا ہے۔ جب طاقت ور جمع ہو جائیں تو مظلوموں کو کیا کرنا چاہیے؟ کیا امن کا گیت گانے اور امن کی فاختائیں اڑانے سے طاقت ور اپنی درندگی سے باز آجاتے ہیں؟ مظلوموں کو خاموشی سے طاقت کے سامنے سر جھکا دینا چاہیے؟ کیا موم بتیاں لے کر امن کا گیت گانے سے امن ہوجاتا ہے؟ بہت سے سوالات ہیں جن کا جواب اہلِ دانش و بینش ہی دے سکتے ہیں، میں تو نہیں۔
جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ جنگ تباہی لاتی ہے، بربادی لاتی ہے، آرزوؤں اور خوابوں کو قتل کرتی ہے۔ لیکن میرے یہ سارے خوب صورت الفاظ، میرے نغمے، میرے گیت، میرے افسانے، میری غزلیں اور میری نظمیں جنگ روک سکتی ہیں؟
شبِ آورہ کو پابندِ سحر کرنا ہے
جی میں ٹھانی ہے کہ اک خواب کو سر کرنا ہے
اسمعٰیل ہنیہ اپنے خواب تعبیر ہوتے ضرور دیکھیں گے۔
The post کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا۔۔۔۔ ! appeared first on ایکسپریس اردو.