کتب تفسیر میں گراں بہا اور خوبصورت اضافہ
تفسیر احسن الکلام
تفسیر کا پندرہ سطری قرآنی متن ہر قسم کی اغلاط سے پاک ، خطاطی اور کتابت کاشاہکار ہے
قرآن مجید ۔۔۔۔ نزول وحی کے سلسلے کی آخری کڑی ہے جو آدم علیہ السلام سے شروع ہو کر آخری نبی حضرت محمد ﷺ پر اختتام پذیر ہوئی ہے ۔ یہ کتاب ہدایت قیامت تک کیلئے بنی نوع انسان کے سماجی، معاشی ، سیاسی ، نظریاتی ، روحانی اور نفسیاتی مسائل کا شافی و کافی حل پیش کرتی ہے ۔
یہ اسلام کا جیتا جاگتا معجزہ ہے ۔ قرآن مجید کی بدولت امت مسلمہ میں ایسا انقلاب آیا جس کی مثال اس سے قبل کسی امت میں نہیں ملتی ۔ قرون اولیٰ میں مسلمانوں کو عروج ملا تو قرآن مجید کی بدولت اور اگر آج مسلمان زوال و ادبار کا شکار ہیں تو ترک قرآن مجید کی وجہ سے ہیں ۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے ۔ اور یہ کتاب قیامت تک کے لیے محفوظ و مامون ہے۔ اس ارفع و اعلیٰ کتاب کا اعجاز یہ بھی ہے کہ یہ اپنے نزول کے وقت سے لے کر آج تک دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔
قرآن مجید کے نزول کا مقصد یہ نہیں کہ صرف اس کی تلاوت کی جائے بلکہ اس کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ تلاوت کے ساتھ ساتھ اس کی آیات کو سمجھا جائے ، غورو فکر اور تدبر کیا جائے۔ اس ضمن میں جب ہم رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے مبارک طریقہ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ رسول اللہﷺ جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو قرآن پڑھاتے تو ایک ایک سورت پر کئی کئی سال لگ جاتے تھے ۔ یہ اس لئے کہ صحابہ کرام صرف تلاوت پر ہی اکتفا نہ کرتے بلکہ سورتوں کی تفسیر و تشریح کو بھی سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کے لیے کوشاں رہتے تھے ۔ حالانکہ عربی ان کی مادری زبان تھی ان کے لئے قرآن مجید کو پڑھنا کوئی مسئلہ نہ تھا ۔۔۔۔ لیکن وہ یہ بات جانتے تھے کہ قرآن مجید کے نزول کا مقصد تب پورا ہوتا ہے جب اسے سوچ سمجھ کر پڑھا جائے۔
قرآن مجید کو توضیح و تشریح کے ساتھ پڑھنا اور اس میں تدبر و تفکر کرنے کا نام تفسیر ہے ۔
رسول اللہﷺ نے قرآن مجید کی تفسیر و تشریح کا کام خود کیا اور پھر صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین ، مفسرین اور آئمہ محدثین نے یہ کام کیا ۔ عربی زبان میں تفسیر کے معنی ہیں کھولنا اور اصطلاح میں علم تفسیر اس علم کو کہتے ہیں جس میں قرآن پاک کے معنی بیان کیے جائیں ، اس کے احکا م اور حکتموں کو کھول کر واضح کیا جائے۔ صحابہ کرام میں سے قرآن مجید کے پہلے مفسر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ تھے جن کے لیے خود رسول اللہﷺ نے دعا فرمائی تھی ۔ اس کے بعد آئمہ محدثین اور مفسرین نے تفسیر کے بارے میں اتنا عظیم الشان کام کیا کہ علم تفسیر مستقل علم کی صورت اختیار کر گیا ۔
قرآن مجید کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ساڑھے چودہ سو سال کے عرصہ میں سب سے زیادہ طباعت و اشاعت اس کی ہوئی ، سب سے زیادہ زبانوں میں اس کے ترجمے کیے گئے اور کیے جا رہے ہیں ۔ ایسے ہی قرآن مجید کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ سب سے زیادہ تفسیریں اس مقدس کتاب کی لکھی گئیں اور قیامت تک لکھی جاتی رہیں گی۔ ساڑھے چودہ سو سال کے عرصہ میں دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآن مجید کی جو تفسیریں لکھی گئیں ان کی فہرست بہت طویل ہے ۔ ہر مفسر نے اپنی علمی بساط اور علمی استعداد کے مطابق تفسیریں لکھی ہیں ۔ یہ تفسیریں مختصر بھی ہیں اور کئی کئی جلدوں پر مشتمل بھی ہیں ۔
قرآن مجید کی تفسیروں میں بیش بہا ، خوبصورت اور گراں قدر اضافہ ’’ تفسیر احسن الکلام ‘‘ ہے ۔ یہ تفسیر 1232صفحات پر مشتمل ہے۔ اس تفسیر کی اشاعت کی سعادت دینی کتابوں کی اشاعت کے عالمی ادارہ دارالسلام کو حاصل ہوئی ہے۔ دارالسلام کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ یہ دینی کتابوں کی طباعت واشاعت کا عالمی ادارہ ہے جس کی اردو ، انگریزی ، فرنچ ، سپینش، جرمن ، چائنیز ، ہندی اور دیگر زبانوں میں شائع کردہ قرآن مجید ، تفاسیر اور کتب ِ احادیث دنیا کے ہر ملک میں دلچسپی کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں ۔ یورپ میں دارالسلام کی کتب پڑھ کر بڑی تعداد میں حلقہ بگوش اسلام ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ دارالسلام دنیا بھر میں پاکستان کی نیک نامی کا باعث بن رہا ہے ۔
ترجمہ وحواشی میں دارالسلام کی اولین کوشش انگریزی زبان میں ’’ دی نوبل قرآن‘‘ ہے ۔ اس مختصر تفسیر کی تکمیل کی سعادت کا اعزاز اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر تقی الدین الہلالی اور ڈاکٹر محمد محسن خان رحمۃ اللہ کو بخشا ۔ دور ِ حاضر میں یہ انگریزی زبان میں مقبول ترین کاوش ہے جسے دنیا بھر میں بے حد مقبولیت اور پذیرائی ملی ہے ۔ پیش نظر ’’ تفسیر احسن الکلام ‘‘ اسی انگریزی کاوش کا آسان اور عام فہم اردو ترجمہ ہے ۔
اسے مزید جامع اور بہتر بنانے کیلئے دارالسلام کی مایہ ناز تفسیر’’ احسن البیان ‘‘ سے بھی بعض مفید حواشی شامل کیے گئے ہیں ۔ ’’ احسن الکلام ‘‘ کی پہلی طباعت میں قرآنی متن کے ترجمے کی غرض سے مولانا محمد جونا گڑھی رحمۃ اللہ کے ترجمہ قرآن کو بہ ادنیٰ تصرف اختیار کیا گیا تھا ۔ جبکہ ’’ احسن الکلام ‘‘ کے تازہ ایڈیشن میں دارالسلام کے علما اور محققین نے متن ِ قرآن مجید کا ازسر نو ایک جدید ترجمہ اردوزبان میں کیا ہے۔ اس ترجمے کو قرآنی متن کے قریب تر رکھنے اور اردو زبان کے جدید روز مرہ کے مطابق سہل اور سلیس بنانے کی پوری کوشش کی گئی ہے ۔
’’ احسن الکلام ‘‘ درج ذیل خصوصیات پر مشتمل ہے :
٭اس تفسیر کا پندرہ سطری قرآنی متن الحمدللہ ہر قسم کی اغلاط سے پاک ، خطاطی اور کتابت کا شاہکار ہے۔
٭ یہ ایڈیشن تلاوت وترجمہ کیلئے بھی نہایت مفید ہے جس میں متن اور ترجمے کا پوائنٹ بہت نمایاں ہے ۔
٭ حواشی میں بیشتر احادیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے ہی لی گئی ہیں ، تفسیر ابن کثیر اور تفسیر قرطبی سے بھی استفادہ کیا گیا ہے ۔
٭ تفسیر میں مذکور تمام احادیث واقوال کی تخریج تنقیح اور نظر ثانی کر دی گئی ہے۔
٭ ’’ تفسیر احسن الکلام ‘‘ طلباء ، علماء اور عوام الناس کے لئے یکساں مفید ہے ۔
٭ ’’ تفسیر احسن الکلام ‘‘ کو پڑھتے وقت قاری ثقل محسوس نہیں کرتا بلکہ تسلسل کے ساتھ پڑھتا اور سمجھتا چلا جاتا ہے۔
٭ قرآن مجید میں بہت سی آیات ایسی ہیں کہ اگر وہ ایک موقع پر مختصر ہیں تو کسی دوسرے موقع پر مفصل ہیں لہذا تفسیر احسن الکلام میں ممکن حد تک ایک آیت کی تفسیر دوسری جگہ وارد تفصیلی آیات ہی سے کی گئی ہے ۔
٭ بعض کتب تفاسیر میں احادیث کی صحت اور ضعف کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔ حالانکہ ضعیف اور موضوع روایات نے دین میں بہت بگاڑ اور انتشار پیدا کیا ہے اور امت کے جسد واحد کو پارہ پارہ کیا ہے ۔ موضوع روایات نے امت کو کمزور کیا ہے ، ایسے لوگوں کو جنم دیا جو خود بھی گمراہ ہوئے اور امت کے ایک بڑے حصے کو بھی گمراہ کیا ۔ ایسے گمراہ فرقوں کو جنم دیا جنہوں نے امت مسلمہ کو بڑے بڑے فتنوں سے دو چار کر دیا ہے۔ امت محمدیہ علیہ السلام کا یہ اتنا بڑا نقصان ہے جو دشمن بھی نہ کر سکتے تھے ۔ اس لئے موضوع اور ضعیف روایات سے استفادہ نہیں کیا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ’’ تفسیر احسن الکلام ‘‘ اختصار و جامعیت کا شاہکا ر ہے اور کتب تفسیر میں گراں بہا اور خوبصورت اضافہ ہے۔ یہ بہت سی کتب کا گلدستہ اور مجموعہ ہے۔ یہ ایک ایسا چمن ہے جہاں علم کا متلاشی ایک ہی وقت میں کئی تفسیروں کے پھولوں کی مہک سے محفوظ ہو سکتا ہے ۔ لہذا یہ تفسیر ہر لائبریری اور ہر گھر کی ضرورت ہے ۔
۔۔۔
تبصرہ نگار: قرۃ العین حیدر
دِلم
مصنفہ: زارا مظہر، ناشر: بک کارنر جہلم
اب تک تو میں اپنے خیالوں میں اپنی آنے والی کتاب کا انتظار کر رہی تھی لیکن زارا مظہر کی کتاب دلم کا میں نے باقاعدہ انتظار کیا ہے۔ زارا آپا اپنے فیس بک آئی ڈی پہ بتا چکی تھیں کہ انہوں نے اپنی تحریروں کو کتابی شکل میں شائع کروانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور میں اسی دن سے اس کتاب کا انتظار میں تھی کہ کب یہ کتاب میرے ہاتھ میں آئے گی۔ اگرچہ کہ اس کتاب کے تقریباً چالیس فیصد باب / آرٹیکلز میں پہلے پڑھ چکی تھی لیکن اس کے باوجود تمام آرٹیکلز کو اکٹھا پڑھنے کا اپنا ہی لطف ہے۔
کوئی چار پانچ سالوں سے میں زارا مظہر کو فالو کر رہی تھی ان کی تحریریں بہت اپنی اپنی سی ہیں جس میں کبھی معاشرے کے کچھ قبیح رسوم و رواج کا ذکر ہوتا ہے، کبھی گھرداری کی بات ہوتی ہے تو کبھی ہمارے اچھے اور برے معاشرتی رویوں کا ذکر ہوتا ہے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ وہ بات کا حل نکالنا چاہتی ہیں۔ وہ اپنی تحریر کے ذریعے یہ بتانا چاہتی ہیں کہ مسائل کا حل کیسے بردباری اور دانش مندی سے نکالا جا سکتا ہے۔ ہمیں اپنے معاشرتی رویوں میں بہتری لانے کیلئے گنجائش پیدا کرنی چاہیے۔ اب رہی بات ”دلم” کی کہ جیسا نام سے ہی ظاہر ہے دلم کا مطلب ہے میرا دل تو گویا زارا مظہر نے اپنا دل پڑھنے والوں کے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے۔ میں یہ حلفاً کہتی ہوں کہ یہ تحریریں واقعی دل سے نکلی ہیں۔ آپ پڑھ کر دیکھئے آپ کو لگے گا کہ یہ آپ کا ہی ذکر ہو رہا ہے۔
کیا ہے اس کتاب میں کہ مجھ جیسی کتابی کیڑا دیوانی ہوئی جا رہی ہے؟؟؟ تو جناب یہ کتاب 90 کی دہائی کی ان یادداشتوں پر مبنی ہے جس میں ہم سب جوان ہوئے۔ اس کتاب میں زارا آپا کی وہ ساری یادداشتیں ہیں جو ذہن کے کسی کونے میں دفن ہو گئی تھی اور اب ایک ایک کر کے وہ ان یادداشتوں کو نکال کر ہم سب کے سامنے لا رہی ہیں۔
مجھے یاد ہے جب 90 کی دہائی شروع ہوئی تو میں اس وقت چھٹی جماعت میں پڑھتی تھی اور جب یہ دہائی ختم ہوئی اس وقت تک میں گریجویشن کر چکی تھی۔ یعنی کہ میں نے اپنی پوری ٹین ایج اسی 90 کی دہائی میں جی ہے۔ یہ وہ دہائی ہے جس میں سائنسی ٹیکنالوجی اپنے عروج پر تھی، جب پی ٹی وی، انٹرٹینمنٹ، سینما، میوزک، ادب اور دیگر ہر چیز کا عروج چل رہا تھا۔ یہ خاندانی معاشرت، تہذیب، رواداری اور استقامت کا دور تھا۔ جب نفسا نفسی کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہ تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ہر گھر میں ماں باپ باآسانی پانچ چھ بچے پال لیا کرتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جہاں ہر دوسرے تیسرے مہینے خاندان میں قرآن خوانیوں پر پورا خاندان اکٹھا ہو جایا کرتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جہاں پورے محلے میں ایک ہی گھر میں ٹیلی فون ہوتا تھا اور سارے محلے دار ایک دوسرے کے ساتھ محبت کی اس ڈور میں بندھے ہوئے تھے جس میں دوسروں کی عزت، پاسداری اور رازداری رکھی جاتی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب ہمسایوں کے ساتھ ماں جائیوں جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب بچے اپنے چچا یا ماموں سے جس طرح ڈرا کرتے تھے یا محبت کرتے تھے، اسی طرح محلے کے ہمسایہ چچا ماموں سے بھی ڈرا کرتے تھے اور محبت سے پیش آتے تھے۔ ابھی معاشرے میں ہر ایک کو انکل آنٹی کہنے کا رواج نہیں آیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب سب کی بہنوں بیٹیوں کی عزت سانجھی سمجھی جاتی تھی، سب کے ماں باپ سانجھے ہوتے تھے۔ میں اور میرے جیسے کروڑوں لوگ اسی 90 کی دہائی میں رک سے گئے ہیں۔ ہم نے زندگی کی بہترین فلمیں اس وقت دیکھیں، ہم نے زندگی کا بہترین موسیقی اور فلمی گانے اس وقت سنے، ہمارے پہلے پہلے کرش اسی زمانے میں سامنے آئے اور ہم لوگوں نے اس دور کے بعد ہی اپنی نئی نئی دنیائیں تلاش کیں۔ ہم سب کی زندگی میں کہیں نہ کہیں یہ 90 کی دہائی میں لاپتہ ہیں اور اس سنہرے روپہلے دور کو یاد کرنے کے لیے اپنی اپنی یادداشتیں کھنگالتے رہتے ہیں۔
یہ تو بات ہو گئی 90 کی دہائی کی اب سوال یہ ہے کہ کیا ہے اس کتاب میں جس نے مجھے مجبور کیا کہ اس کتاب کے بارے میں لکھوں۔ اس کتاب میں کیا نہیں ہے۔۔۔۔ اس میں ازدواجی اور گھریلو ماحول، شادی شدہ معاشرت، گھرداری، معاشرے کے چند مسائل، ہماری ذاتی خوبیاں اور خامیاں جس کے بارے میں شاید صرف ہمیں پتا ہو اور ایسی خوبصورت یادداشتیں ہیں جس میں ہر شخص یہ محسوس کرتا ہے کہ جیسے زارا مظہر نے میرے دل کی بات کہہ دی۔ مرزا غالب نے تو ڈیڑھ صدی پہلے کہا تھا
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اُس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
زارا مظہر کی پہلی کتاب ان کے تجربات، مشاہدات اور یادداشتوں پر مبنی ہے۔ منظر کشی اور واقعہ بیان کرنے میں وہ ایسی ماہر ہیں کہ گمان ہوتا ہے کہ جیسے ہم بھی ان کے ساتھ ساتھ ان کے محلے داروں، کبھی گوجرانوالہ اور چشمہ کے ہمسایوں کے ساتھ ساتھ انہی کے گھر میں بیٹھے انہی کے گھر کا حصہ بن چکے ہیں۔ میں خاص طور پر یہاں آپ کو بتانا چاہوں گی کہ اس کتاب کے دو باب #تتلی_کے_پر اور #آنول_نال ایسی دل سے نکلی ہوئی تحریریں ہیں جس سے ہر کوئی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ جو باتیں زارا آپا نے اپنی بیٹی سے کہیں، یہ وہی گفتگو ہے جو ہر ماں باپ اپنی بیٹی کے ساتھ شادی کے موقع پر کرتے ہیں۔ خاص طور پر تتلی کے پر پڑھتے ہوئے میری آنکھیں ہمیشہ کی طرح نم ہو گئیں۔ پہلی بار جب فیس بک پر پڑھا تب بھی نم ہو گئی تھیں اور اس دفعہ جب بہت تفصیل سے پڑھا اور بہت ساری لائنوں کو ہائی لائٹ کیا تو مجھے یہ یہی احساس بارہا ہوا کہ آپ کچھ کر لیں آپ کی شادیوں کو جتنا مرضی وقت گزر جائے عورت کا دل اس کے میکے کی دہلیز سے باہر نہیں نکلتا۔ لیکن ایک بڑی سیدھی سی بات ہے زارا آپا گھریلو عورت ہیں انہوں نے اس کتاب کے مختلف ابواب کے ذریعے لوگوں کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ایک گھر چلانے کے لیے، اپنی کائنات بنانے کے لیے، اپنی جنت تخلیق کرنے کیلئے اپنی ہستی مٹانی پڑتی ہے۔۔۔ عورت کو جھکنا پڑتا ہے۔ اور یہ بات بالکل سچ ہے مجھے راجندر سنگھ بیدی کا افسانہ یاد آگیا جس کا نام لمبی لڑکی ہے۔ اس افسانے میں ایک لمبی لڑکی کی شادی ایک ٹھگنے قد کے آدمی سے ہو رہی تھی۔ لڑکی کو شادی سے پہلے دادی سمجھاتی ہے کہ تم اپنے شوہر کے سامنے جھک کر چلنا تاکہ اسے احساس نہ ہو کہ اس کا قد چھوٹا ہے تو لڑکی رو پڑتی ہے اور دادی کو کہتی ہے کہ اب تم مجھے یہ بھی بتاؤ گی کہ میں نے چلنا کیسے ہے؟ تب دادی ایک پتے کی بات کرتی ہے اور وہیں افسانہ ختم ہوجاتا ہے ”عورت نہ جھکے تو سنسار چلتا کہاں ہے؟” اور واقعی یہی بات زارا مظہر نے اپنی تحریروں کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ عورت کو ہر معاملے میں چاہے وہ گھریلو عورت ہے یا خودمختار اپنا گھر دیکھنے، سنبھالنے اور اسے جنت بنانے کیلئے بہت سی باتوں کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ کبھی اسے اپنا دل مار کر کئی کئی مہینے بلکہ کئی کئی سال اپنے میکے کی جدائی سہنی پڑتی ہے، کئی بار اپنا دل مار کر اپنی ساری خواہشات، سارے شوق ختم کرنے پڑتے ہیں۔ کئی کئی دن، کئی کئی راتیں اپنے بچے کو پالنے کے لیے رتجگے جھیلنے پڑتے ہیں اور پھر جب وہ اس سخت وقت سے۔۔۔۔۔ آگ میں تپ کر کندن بن جاتی ہے تب اس معاشرے میں آئیڈیل بیوی، ماں، بیٹی بن پاتی ہے جو مستقبل کی شاندار نسل کی امین ہوتی ہے۔
میری ناقص رائے میں اپنی بیٹیوں کو شادی کے موقع پر قرآن مجید کے ساتھ بہشتی زیور دینے کے بجائے اگر اپ دلم دیں گے تو شاید آپ کی بیٹیوں کو گھرداری، رشتے نبھانا، ذہنی پختگی اور جہاندیدہ پن ذرا جلد آئے گا۔
The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.