آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا بن گیا ہے ۔
تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی سے ایک طرف ہمارے چیلنجز میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ دوسری طرف وسائل میں کمی آرہی ہے جس سے سنگین مسائل پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ آبادی سے منسلک مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ’’آبادی کے عالمی دن‘‘ کے موقع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ثمن رائے
(ڈائریکٹر جنرل پاپولیشن ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ سی ای او پنجاب پاپولیشن انڈومنٹ فنڈ)
1989ء میں پہلی مرتبہ اقوام متحدہ نے آبادی کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا۔ تب سے آج تک ہر سال یہ دن منایا جاتا ہے جس کا ایک خاص موضوع ہوتا ہے۔ اس روز آبادی کے حوالے سے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جاتا ہے اور اقدامات اٹھانے پر زور دیا جاتا ہے۔
آبادی ایک عالمی مسئلہ ہے۔ اس وقت دنیا کی آبادی 8 ارب سے زائد ہوچکی ہے جس میں سے 4 ارب خواتین ہیں لہٰذا ان کے حقوق کا تحفظ ، صحت اور وسائل تک ان کی رسائی، ترجیحی بنیادوں پر یقینی بنانا ہوگی۔ آبادی کا تعلق ماں کے ساتھ ہے، ماں بچے کی صحت انتہائی اہم ہے۔ پاکستان کی آبادی 24 کروڑ سے زائد ہوچکی ہے، پنجاب 12 کروڑ سے آگے نکل گیا ہے، ہمارا فرٹیلیٹی ریٹ 2.55 فیصد ہے، آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے،اسے کم کرنا ہوگا۔
رواں برس آبادی کے عالمی دن کا موضوع ’’انکلوسیو ڈیٹا‘‘ ہے۔ ڈیٹا کے بغیر کوئی پلاننگ نہیں ہو سکتی، نہ ہی کوئی اقدامات کیے جاسکتے ہیں لہٰذا آبادی کے حوالے سے مکمل ڈیٹا کا حصول انتہائی اہم ہے۔ آبادی پر قابو، تولیدی صحت، جوانی کا حمل ، مانع حمل کی ادویات، ماں بچے کی صحت سمیت دیگر حوالے سے کام کرنے کیلئے درست ڈیٹا کا ہونا ضروری ہے،اس کی روشنی میں طے کیا جائے گا کہ کیا کرنا ہے، کن سہولیات کی کتنی ضرورت ہے۔ پنجاب پاپولیشن انڈومنٹ فنڈ کے ذریعے نظام میں جدت لائی جا رہی ہے۔ پنجاب میں معاملات بہتر ہیں جبکہ باقی صوبوں میں 69 برس پرانا نظام چل رہا ہے۔
ہمارے صحت کے پرائمری و سیکنڈری ادارے بھی بہترین کام کر رہے، پاپولیشن ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے 200سے زائد ڈاکٹر ان ہسپتالوں میں فیملی پلاننگ سروسز و رہنمائی فراہم کر رہے ہیں۔ پنجاب میں ہمارے 129 فیملی ہیلتھ کلینکس اور 119 موبائل یونٹس ہیں۔ پاپولیشن ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے مانع حمل کی ادویات کی سپلائی بھی یقینی بنائی جا رہی ہے۔ آبادی کے دو پہلو ہیں، ایک طرف بے ہنگم آبادی بڑا مسئلہ ہے تو دوسری طرف زیادہ آبادی ترقی کا ذریعہ بھی ہے۔
ہم خوش قسمت ہیں کہ ہماری آبادی زیادہ ہے اور یہاں نوجوانوں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ہمارے برعکس یورپ، جاپان و دیگر ممالک سڑ جوڑے بیٹھے ہیں۔ یورپ میں لوگ بچے پیدا نہیں کر رہے جو ان کی معیشت کیلئے ڈراؤنا خواب ہے۔ جاپان میں سکولوں کی عمارتیں خالی ہیں، چھوٹے بچے ہی نہیں، تعداد انتہائی کم ہے۔ اس کی ایک وجہ تو ہیروشیما اور ناگاساکی کا سانحہ ہے جس کے بعد وہاں معذور بچے پیدا ہونے لگے تو لوگوں میں رجحان کم ہوگیا، اس کا اثر ان کی آبادی پر ہوا ہے۔ اس وقت دنیا کی سوچ بدل گئی ہے، اب آبادی پر قابو پانے کا لفظ بھی استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ مہذب معاشروں میں اسے لوگوں کی آزادی صلب کرنے کے مترادف قرار دیا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک یہ ہے کہ سب کو آگاہی لازمی دیں تاکہ کوئی بھی فیصلہ انجانے میں نہ کریں بلکہ مکمل طور پر آگاہ ہوں ۔
اس وقت یورپ میں آبادی بڑھانے پر توجہ دی جا رہی ہے جبکہ ہمارے ہاں پہلے سے ہی زیادہ آبادی ہے لہٰذا اگر اسے درست سمت دی جائے توہم اپنی نوجوان نسل کو استعمال کر کے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت بن سکتے ہیں، ہمیں لوگوں کے رویے بدلنا ہونگے۔ پنجاب میں تولیدی صحت کے حوالے سے تمام سہولیات بالکل مفت فراہم کی جا رہی ہیں۔ عالمی مالیاتی بینک کے تعاون سے پاپولیشن ویلفیئر اننوویشن فنڈ ، فیملی پلاننگ کے واؤچرز تقسیم کرے گا، اسے لوگ فائدہ اٹھا سکیں گے۔
ہم صحت کے حوالے ڈرامہ بھی بنا رہے ہیں تاکہ لوگوں کو آگاہی دی جاسکے۔ ذہنی پسماندگی اور کمزور فیصلہ سازی سے مسائل بڑھ رہے ہیں، فیصلہ سازی میں والدین اور بڑوں کی اہمیت زیادہ ہے، لوگ علماء کرام کی بات کو غور سے سنتے ہیں اوراس پر عمل کرتے ہیں، ہم امام، علماء اور خطباء کے ساتھ کام کر رہے ہیں تاکہ مساجد سے لوگوں کو صحت کا پیغام جائے، 10 اضلاع میں علماء ہمارے پیغامات کو عام کر رہے ہیں۔
ثمینہ اشرف
( ریجنل ڈائریکٹر، فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن آف پاکستان)
ہر سال آبادی کے عالمی دن کے موقع پر ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ آبادی کا جن بوتل میں بند کرنا ہے اور پھر یہ جذبہ کہیں کھو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ 1953ء میں ہمارا ادارہ واحد تھا جس نے سوچا کہ ماں کی زندگی اہم ہے لہٰذا ہم نے ماں، بچے کی صحت، آبادی و اس سے منسلک دیگر معاملات کے حوالے سے کام کا آغاز کیا جو تاحال جاری ہے۔ اس وقت ہم آگاہی، تولیدی صحت، خاندان کی صحت و دیگر حوالے سے بھی کام کر رہے ہیں، ہمارے کلینک اور ہسپتال موجود ہیں، ماں بچے کی صحت پر بھی ہماری خصوصی توجہ ہے۔ہم حکومت اور پاپولیشن ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ مل کر بھی کام کر رہے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت ملک مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی نے ہمارے لیے بڑے چیلنجز پیدا کر دیے ہیں، ہمیں وسائل کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ لوگوں کے لیے سانس لینا دشوار ہوگیا ہے، آلودہ فضاء، بڑھتی ہوئی گاڑیوں کا دھواں، کوڑا کرکٹ و دیگر اس کی وجوہات ہیں، اگر اب بھی کچھ نہ کیا تو وقت ہاتھ سے نکل جائے گا۔ آبادی جیسے بڑے مسئلے پر کام کرنے کیلئے اداروں کے درمیان روابط ضروری ہیں مگر یہاں فقدان نظر آتا ہے۔
آبادی کے حوالے سے مختلف غیر سرکاری تنظیمیں کام کر رہی ہیں، کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے انہیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا ہوگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ این جی اوز، سول سوسائٹی سمیت تمام سٹیک ہولڈرز ملک کر کام کریں تو ملک کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے۔ ہمارے ادارے نے اس حوالے سے لیڈ لی اور سول سوسائٹی اداروں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جس کے اچھے نتائج سامنے آئے۔ آبادی پر قابو پانے کے حوالے سے مانع حمل کی ادویات کی سپلائی کا مسئلہ ہے،اس کی ہر جگہ پر دستیابی ضروری ہے، اقدامات کرنا ہونگے۔ اس حوالے سے ورلڈ بینک کے تعاون سے پروگرام کا آغاز ہو رہا ہے، امید ہے اس سے بہتری آئے گی۔
اگر ہم اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں آبادی پر قابو پانا ہوگا تاکہ لوگوں کو تمام تر سہولیات دی جا سکیں۔ میرے نزدیک آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے سیاسی ول کی ضرورت ہے، جس دن یہ ہوگئی، تبدیلی آجائے گی۔ہماری سیاسی قیادت کو جرات کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ہمارے ہمسایہ ملک ایران میں یہ لازم کیا گیا کہ ماں 2 سال تک بچے کو دودھ پلائے گی،اس طرح خود ہی دو سال کا وقفہ ہوگیا اور اس کے مثبت نتائج سامنے آئے۔
ہمارے ارباب اختیار کو بھی اس پر سوچنا چاہیے۔ ہمارا ادارہ نوجوانوں کی ذہن سازی اور تربیت پر بھی کام کر رہا ہے، ان کی کونسلنگ انتہائی ضروری ہے۔ اگر شادی سے پہلے کونسلنگ کو لازمی قرار دیا جائے تو خاطر خواہ فائدہ ہوگا، حکومت کو اس پر کام کرنا چاہیے۔ اسی طرح موجودہ مسائل اور ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیمی نصاب میں آبادی پر قابو پانے کیلئے خصوصی مضامین شامل کیے جائیں۔ ہم مشکلات سے دو چار ہیں، اگر آئندہ 10 برسوں میں بھی ہم نے آبادی کو مینج کرلیا تو یہ اہم سنگ میل ہوگا۔
شاہنواز خان
(نمائندہ سول سوسائٹی)
آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے مگر سروسز اور خدمات میں آخری نمبروں پر ہے۔ ہمارے ہاں سکول، ہسپتال و دیگر سہولیات کا فقدان ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ڈھائی کروڑ بچے سکول نہیں جاتے جبکہ ہسپتالوں میں ہر بیڈ پر 3، 3 بچے موجود ہیں۔ افسوس ہے کہ آبادی کا جن ہمارے سارے وسائل نگل رہا ہے، وسائل انتہائی محدود رہ گئے ہیں اور اب یہ ہماری بقاء کا مسئلہ بن چکا ہے۔ ہماری آبادی بڑھنے کی شرح 2.55 ہے۔
وسائل کے چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے آبادی پر قابو پانا ناگزیر ہوچکا ہے مگر ہمارا کلچر ، روایات اور بعض حلقے اس میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ دیہات میں آبادی زیادہ ہے، خاندان بڑے ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ غربت ہے۔ لوگ بچوں کو اپنا سہارا سمجھتے ہیں، انہیں کام پر بھیجتے ہیں ، ان کی کمائی سے گھر کا خرچ چلتا ہے، افسوس ہے کہ 8، 9 برس کے بچے کو کام پر بھیج دیا جاتا ہے جو زیادتی بھی ہے اور جرم بھی۔ زیادہ آبادی اور کم وسائل کی وجہ سے ہم مسائل کے بھنور میں پھنس چکے ہیں۔ غربت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے 40 فیصد بچوں کی درست نشونما نہیں ہو رہی، سٹنٹڈ گروتھ والے یہ بچے آگے چل کر چیلنجز میں مزید اضافہ کریں گے۔
افسوس ہے کہ سالانہ 36 ہزار ماؤں کی اموات دوران زچگی ہوتی ہیں جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کی وجہ وسائل اور آگاہی کا نہ ہونا ہے۔ اگر ہم اپنے مسائل پر قابو پانا اور وسائل کو بڑھانا چاہتے ہیں تو ہمیں آبادی کنٹرول کرنا ہوگی۔ اس ضمن میں قومی سطح پرمنظم آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے جس میں علماء کرام، سول سوسا ئٹی اور سیاستدانوں سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو شامل کرنا ہوگا۔ آبادی کے لحاظ سے آگاہی کیلئے ہم نے پنجاب پاپولیشن اننوویشن فنڈ کے تعاون سے موبائل ’ایپ‘ تیار کی ہے۔ اس ایپ کی پنجاب کے 9 اضلاع میں اب تک 90 ہزار ڈاؤن لوڈز ہوچکی ہیں،ان میں راجن پور جیسے پسماندہ علاقے اور دیہات موجود ہیں۔
اس ایپ کے ذریعے لوگوں کو آبادی، پاپولیشن سینٹرز، آبادی کنٹرول کے طریقے، ڈاکٹرز تک رسائی ودیگر سہولیات دی جا رہی ہیں، اب تک 7 ہزار افراد اس کے ذریعے سہولیات سے استفادہ حاصل کر چکے ہیں۔ پاپولیشن ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ اپنی ایپلی کیشن بھی تیار کر رہا ہے، آئی ٹی اور ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے آبادی کو کنٹرول کرنے پر کام جا ری ہے۔ ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آبادی کنٹرول کے حوالے سے سروسز تک لوگوں کی رسائی نہیں ہے۔ انہیں ان کے گھر کی دہلیز پر سہولیات نہیں ملتی جس کی وجہ سے مسائل میں کمی نہیں آرہی لہٰذا سہولیات تک رسائی کو یقینی بنایا جائے۔ ہمارے معاشرے میں مرد غالب ہے، خواتین فیصلہ سازی میں شامل نہیں۔ خاص طور پر گھر کے معاملات اور خاندان کے فیصلوں میں خواتین کی آواز مدھم ہے لہٰذا آبادی پر قابو پانے کیلئے ہمیں مردوں کو آگاہی مہم میں شامل کرنا ہوگا، ان سے بات چیت کرنا ہوگی ۔ مرد اور نوجوانوں کو آگاہی دینے کیلئے ہم نے 6 یونیورسٹیز کا انتخاب کیا ہے۔
ان کے تعاون سے ایسے پروگرام کیے جائیں گے جن میں مردوں کی شمولیت ہو۔ آگاہی دینے میں میڈیا کا کردار انتہائی اہم ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو بڑھتی ہوئی آبادی اور اس سے منسلک مسائل کے بارے میں آگاہی دی جائے اور آبادی کنٹرول کرنے کی طرف مائل کیا جائے۔ ایک بات توجہ طلب ہے کہ کم عمری کی شادی کی وجہ سے بھی آبادی میں اضافہ ہوتا ہے۔ کم عمری کی شادی کے حوالے سے قانون جلد منظور کرنا ہوگا تاکہ آبادی اور اس سے منسلک مسائل پر قابو پایا جاسکے۔
The post آبادی کا جن وسائل نگل رہا،انقلابی اقدامات کرناہوں گے!! appeared first on ایکسپریس اردو.