واقعۂ کربلا تاریخ اسلام کا وہ جگر فگار اور الم ناک باب ہے جس نے نہ صرف قلب ِ ملت ِ اسلامیہ میں ہی شگاف ڈال دیا، بل کہ عالم انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا۔ خانوادۂ حبیب کبریا ؐ کو جس بہیمانہ انداز میں بے جرم و خطا ریگ زار کربلا میں ذبح کیا گیا اور معصومین و مطہرین کے اجساد کو نیزوں کی انیوں پر اچھال کر ملوکیت اپنے تسکین قلب و نظر کا اہتمام کرتی رہی، سر اقدس حسین ؓ کو طشتری جبر میں سجا کر یزیدیت کو نذرانہ پیش کیا گیا۔
گلوئے علی اصغرؓ کو تاک تاک کر تیروں سے چھلنی کیا گیا، خیام اہل بیت ؓ کو آوارگان یزیدیت تمسخرانہ مسکراہٹ کے ساتھ آگ لگا کر اُن کی راکھ کو ایک شان بے نیازی سے ہوا میں اچھال کر دربار یزیدیت کی طرف بھیجتے رہے کہ تم قصر شاہی میں اب آرام سے حکومتی امور سر انجام دو تمہارے راستے کی تمام رکاوٹیں دور کر دی گئی ہیں۔ مستند کتابوں میں تحریر ہے کہ اُن پاک باز اور پاک نگاہ ہستیوں کو دردناک طریقے سے شہید کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بل کہ برگ ہائے لالہ و گُل سے بھی نازک تر جسموں کو گھوڑوں کے سموں سے پامال کرکے اپنے ذوق کی تسکین کی گئی۔
اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ مخدرات خاندان نبوتؐ کو پابند سلاسل کوفہ و شام کی گلیوں میں گستاخانہ انداز میں دربار یزید میں لایا گیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس ظلم و تعدی اور وحشت و بربریت کے مظاہرے کی نوبت کیوں پیش آئی، کیوں خانوادہ نبوتؐ کی (نعوذباﷲ) رسوائی کا خونیں اہتمام کیا گیا، کیوں نوجوان اکبرؓ و عباسؓ کے مقدس شانوں کو آروں سے چیرا گیا، کیوں معصوم علی اصغرؓ کی معصومیت کو پیکران استبداد کے قہقہوں کی نذر کیا گیا، کیوں ملکہ حمیت و عصمت سیدہ زینب ؓ کی چشم تر کا مذاق اڑایا گیا، کیوں سیّدہ سکینہ ؓ کے لیے بے برگ و گیاہ علاقے میں رنج و محن کا اہتمام کیا گیا۔
جنگ میں خنجر قاتل کے تلے آل بتول
دشت میں زینب ؓ و صغریٰ ؓ کے لیے رنج و محن
اس حادثہ فاجعہ کے بعد اپنے زعم میں کچھ نام نہاد حق پرستوں نے تاریخ کے اس کرب ناک واقعے کے متعلق تشکیک کی گرد اڑانے کی کوشش کی ہے اور انتہائے ستم ظریفی یہ کہ معاندین اہل بیت ؓ کا موقف صحیح ثابت کرنے کی مذموم کوشش کی ہے بل کہ یہ کہہ کر یزید کو اس واقعے سے بری الذمہ قرار دینے کی سعی لاحاصل بھی کی ہے کہ یزید کو اس واقعے کا علم نہیں تھا اور یہ ساری داستان ستم اُس سے بالا بالا رقم کی گئی۔
خامہ انگشت بہ دنداں ہے اسے کیا کہیے!
پہلی بات تو یہ ہے کہ خاندان نبوت ؐ کے ایسے چشم و چراغ جنہوں نے بہ راہ راست حضور سید المرسلین ﷺ کی آغوش عاطفت میں عہد طفولیت و معصومیت کی منازل طے کی ہوں، جس کی زبان اقدس میں لمحۂ شہادت تک آقائے دو جہاںؐ کے لعب دہن کی تاثیر مقدس موجود ہو، جو حالت نماز میں امام الانبیاء ؐ کے پشت مبارک پر سوار ہو جاتا ہو اور آپؐ رکوع و سجود کو طوالت محض اس لیے دیتے ہوں کہ کہیں تسکین خاطر حسین ؓ میں خلل واقع نہ ہو، جو اپنے نانا محترمؐ کے ساتھ محراب و منبر کی زینت بنتا رہا ہو، جسے سید شباب اہل الجنتہ کے دل نواز و دل پذیر لقب سے نوازا گیا ہو، جس کے والد گرامی نے حضور سرور کائنات ؐ کی ذات والا صفات سے اس قدر علوم و معارف کے خزانے اپنے سینے میں اتار لیے ہوں کہ اسے باب العلم کے عدیم النظیر لقب سے نوازا گیا ہو، جس کی والدۂ معظمہ جنّتی عورتوں کی سردار ہونے کے باوجود زہد و اتقاء میں شب و روز اس قدر ڈوبی رہتی ہوں کہ چکی پیستے ہوئے بھی آغوش میں اپنے لخت جگر حسین ؓ کو ڈال کر جادۂ حق پر گام زن رہنے کی تعلیم دیتی رہی ہوں، تو کیا عازم کربلا ہوتے وقت اُس نواسۂ رسول ؐ کا موقف (معاذاﷲ) غلط ہو سکتا ہے ؟
بالفرض اگر یزید لعین قتل حسین ؓ سے بری الذمہ ہے اور اتنے بڑے جانکاہ حادثے سے لاعلم تھا تو کیا اُس نے اس ظلم عظیم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کی؟ یا انہیں ملامت تک کا کوئی خط بھی تحریر کیا، یا ابن زیاد کو کوئی زجر توبیخ کی، اُس سنگ دل کے ضمیر میں تو خاندان نبوتؐ کے ساتھ عداوت اس قدر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی کہ اُس نے مدینۃ الرسول ؐ کو قتل غارت گری کے لیے مباح قرار دے دیا، بیت اﷲ شریف پر سنگ باری کی گئی جس کی شدت سے کعبہ کی دیواریں خستہ حالی کا شکار ہوگئیں۔ اگر یزیدی حکومت میں شرافت کی ہلکی سی رمق بھی موجود ہوتی تو وہ سوچتی کہ خیرالخلائق سرتاپا رحمت و رافت، شفیق و رحیم و کریم، مجسم اخلاق و مروت حضور سیدالکونین ﷺ کی ذات گرامی نے فتح مکہ کے موقع پر دشمنان اسلام کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا، اُن کے گھروں کو جائے امان قرار دیا، اُن کی تمام گزشتہ خطاؤں اور جرائم سے صرف نظر فرماتے ہوتے ردائے رحمت میں جگہ عطا فرمائی۔ اگر رحمت للعالمینؐ کی جگہ کوئی دنیاوی شہنشاہ فاتح ہوتا تو اپنے مخالفین کو ایسی لرزہ خیز سزا دیتا کہ اُن کی نسلیں قیامت تک خوف سے لرزتی رہتیں۔
حقیت یہ تھی کہ اسلام کا طرز حکوت جب خلافت سے ملوکیت میں تبدیل ہوا تو اس نے بے راہ روی، سرکشی، بد اخلاقی اور الحاد و بے دینی کے جو گُل کھلائے، ضوابط دین الٰہی پامال ہوتے ہوئے نظر آئے تو حیدر کرارؓ کے صاحب زادے سیدنا امام عالی مقامؓ نے احیائے دین کا جرأت مندانہ اعلان کردیا۔
اگرچہ اس گراں قدر کلمے کی حفاظت کی پاداش میں آپؓ کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑی مگر آپؓ نے علم حق نگوں نہیں ہونے دیا اور اپنے دست عطا سے صحرائے کربلا پر توحید کی ایسی تحریر اپنے اور اپنے اہل بیت کے خون مطہر سے رقم کی جس کی تابش سے تاریخ شجاعت کے اوراق جگمگا رہے ہیں اور اہل اسلام کربلا سے تاقیامت جبرو استبداد کے خلاف جدوجہد کا درس لیتے رہیں گے۔ اس ضمن میں آپؓ نے جو بھی قدم اٹھایا وہ روح اسلام و قرآن کے مطابق تھا۔ اسی لیے اقبال کہتے ہیں کہ عظمت قرآن کا سب سے بڑا رازدار حسین ؓ ہے، اگر کسی نے اس کی شان اور بھید کا پتا کرنا ہو تو حسین ؓ سے پوچھے کہ ہم نے قرآن سے حسین ؓ کی محبت کے شعلوں کو اپنی بقائے حیات کے لیے اکٹھا کیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ قرآن اور حسین لازم و ملزوم ہیں۔
رمز قرآں از حسین آموختیم
زآتش او شعلہ ہا اندوزختیم
The post عظمتِ قرآں کا رازداں appeared first on ایکسپریس اردو.