حضرت زینبؓ، علی کرم اﷲ وجہہ و جناب فاطمہؓ کی چہیتی بیٹی اور خاتم الانبیاء ﷺ کی نواسی ہیں۔ آپؓ نہایت ہی بافضیلت، متّقی اور شفیق خاتون تھیں۔ آپؓ علمی فضیلت ساتھ زندگی کے ہر موضوع پر دست رس رکھتی تھیں، جن کا اظہار زندگی کے مختلف ادوار میں زمانے نے دیکھا۔ میدان کربلا میں آپؓ کا جرأت مندانہ کردار اور پھر اس کے بعد قافلہ حسینی کی مدبّرانہ اور جرأت مندانہ قیادت اور پھر آپؓ کے خطبات آپؓ کی شخصیت کے مظہر ہیں۔
جب حضرت زینبؓ کی ولادت باسعادت ہوئی تو نبی کریم ﷺ مدینہ میں نہیں تھے۔ حضرت فاطمہؓ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ بچی کا اسم گرامی تجویز کیجیے تو حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کی واپسی کا انتظار کیا جائے۔ جب نبی کریم ﷺ سفر سے واپس تشریف لائے تو آپؐ کو نواسی کی ولادت کی خوش خبری سنائی گئی اور نام رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا۔ روایات میں ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: اس بچی کا نام اﷲ تعالی تجویز فرمائیں گے۔ اور پھر جناب جبرئیلؑ نازل ہوئے اور یہ پیغام دیا کہ اس بچی کا نام زینب تجویز کیا گیا ہے۔
حضرت زینبؓ کو یوں تو بے شمار القابات سے پکارا جاتا ہے لیکن ان میں سے چند یہ ہیں: عالمہ غیر معلمہ، نائب الزہراء، عقیلہ بنی ہاشم، نائب الحسینؓ، صدیقہ صغری، محدثہ، زاہدہ، فاضلہ، شریکۃ الحسینؓ، راضیہ بالقدر و القضاء۔
حضرت زینبؓ کا بچپن اور تربیت:
کسی بھی انسان کی کم سنی اس کی زندگی کا اہم ترین دور اور اس کی باقی زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بچپن میں جو تربیت وہ حاصل کرتا ہے وہ بقیہ ادوار کے لیے اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے۔ اور یہ بھی انتہائی اہم ہے کہ اس کی تربیت کن افراد نے کی ہے۔
حضرت زینبؓ لاثانی ہیں کہ ان کی تربیت ان ہستیوں نے فرمائی جو سیرت و کردار، عزم و حوصلے اور تقوی و پرہیز گاری میں لامثال ہیں۔ ماں کی گود انسان کا پہلا مکتب ہوتی ہے، آپؓ کی تربیت آپؓ کی والدہ سیّدہ نساء العالمین حضرت فاطمہؓ اور والد گرامی جناب علی کرم اﷲ وجہہ جنہیں باب العلم ہونے کا منفرد اعزاز و رتبہ حاصل ہے، نے فرمائی اور اس کے ساتھ ہی آپؓ کے عظیم نانا حضرت محمد مصطفٰے ﷺ جنہیں اﷲ تعالی نے پوری کائنات کے لیے اپنا آخری راہ بر کامل بنایا اور آپ ﷺ کی زندگی کو اسوۂ حسنہ قرار دیا گیا۔’’بعد از خدا بزرگ تُوئی قصّہ مختصر‘‘ کے زیر سایہ ہوئی۔
اس طرح آپؓ نے رسول کریم ﷺ، امام المتقین حضرت علیؓ اور جناب فاطمہ زہرا ؓ جیسی عظیم الشان اور لامثال ہستیوں کے زیرسایہ تعلیم و تربیت اور پرورش کے مراحل طے فرمائے۔ آپؓ کی شادی عبداﷲ ابن جعفرؓ سے ہوئی۔ عبداﷲ حضرت جعفر طیارؓ کے فرزند تھے اور بنی ہاشم کے اعزازات و اکرامات سے آراستہ تھے۔ آپؓ کے چار فرزند تھے جن کے نام محمد، عون، جعفر اور ام کلثوم رضی اﷲ تعالی عنہم ہیں۔
کربلا انسانی تاریخ کا رخ موڑ دینے والا ایک لامثال واقعہ ہے۔ لہذا اس کو تشکیل دینے والی شخصیات بھی ایک منفرد حیثیت کی حامل ہیں۔ امام حسینؓ اور آپ کے ساتھیوں نے ایک مقدس اور اعلی ہدف کے حصول کی خاطر یہ عظیم الشان اور لامثال قربانی ادا فرمائی۔ لیکن اگر حضرت زینبؓ اس عظیم واقعے کو زندہ رکھنے میں اپنا کردار ادا نہیں کرتیں تو بلاشبہ وہ تمام تکالیف اور جدوجہد بارآور نہ ہوتیں۔
اس لیے بلاتردد یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ہم آج شہدائے کربلا کے مقصد اور ٕپیغام سے آگاہ ہیں اور ان کی اس عظیم قربانی کے مقاصد کو جانتے ہیں تو یہ سب کربلا کے برپا ہونے کے بعد قافلہ حسینی کی حضرت زینبؓ کی مجاہدانہ اور شجاعانہ قیادت اور اپنے فکر انگیز اور دوٹوک خطبات کے ذریعے اس عظیم پیغام کو دنیا والوں تک پہنچانے کا نتیجا ہے۔ اسی لیے آپؓ کو بجا طور پر ’’شریکۃ الحسینؓ‘‘ کہا جاتا ہے۔ امام عالی مقام حسینؓ اور ان کے پاک باز ساتھیوں نے اپنی تلواروں کے ذریعے خدا کے رستے میں جہاد عظیم فرمایا اور اپنی جانوں کی قربانی پیش فرمائی تو حضرت زینبؓ نے اپنے خطبات اور قیادت کے ذریعے اس جہاد کو اپنی آخری منزل تک پہنچایا۔
کربلا میں سرور شہیدان امام حسینؓ اور ان کے جاں نثار رفقاء کو شہید کرنے کے بعد دشمن دین یہ سوچ رہا تھا کہ اسے بے نظیر فتح نصیب ہوئی ہے اور اس کے مخالفین کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگیا ہے۔ لیکن اس کی یہ خام خیالی حضرت زینبؓ کے پہلے ہی خطبے کے بعد دُور ہوگئی اور یہیں سے دشمن دین متین کی بربادی اور نابودی کا آغاز ہوگیا۔
حضرت زینبؓ کے خطبات میں ان کے والد گرامی امام المتقین حضرت علیؓ کی شجاعت، فصاحت اور بلاغت کی جھلک نظر آتی ہے اور کیوں نہ نظر آتی کہ امام المتقین حضرت علیؓ شہر علم ﷺ کے باب العلم ہیں۔
بازار کوفہ میں حضرت زینبؓ کا عظیم خطبہ:
کوفہ کے ہزاروں مرد و زن یہ اندوہ ناک منظر دیکھنے کو وہاں جمع تھے۔ آلِ رسول ﷺ کو اس حالت میں دیکھ کر زار و قطار رونے لگے۔ امام زین العابدینؓ نے نحیف و نزار آواز کے ساتھ فرمایا: ’’اے کوفہ والو! یہ تو بتاؤ ہمیں قتل کس نے کیا ہے۔۔۔ ؟
اسی اثناء میں ایک کوفی عورت نے چھت سے جھانک کر دیکھا اور پوچھا: تم کس قوم اور قبیلہ سے تعلق رکھتے ہو؟ آپؓ نے فرمایا: ’’ہم خاندانِ نبوتؐ کے اسیر ہیں۔‘‘
یہ سن کر وہ نیک بخت عورت نیچے اتری اور کچھ برقعے اور چادریں اکٹھی کر کے ان کی خدمت میں پیش کیں۔
اس وقت عقیلہ بنی ہاشم حضرت زینبؓ نے خطبہ ارشاد فرمایا۔ لوگوں کی آہ و زاری اور شور کی وجہ سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ لیکن راوی بتاتے ہیں کہ جوں ہی علیؓ کی بیٹی اور حسینؓ کی شجیع بہن نے لوگوں کو مخاطب کیا: ’’خاموش ہو جاؤ‘‘ تو ہر طرف سناٹا چھا گیا تو امّ المصائبؓ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا:
’’سب تعریفیں خداوند ذوالجلال و الاکرام کے لیے ہیں اور درود و سلام ہو میرے نانا محمد ﷺ پر اور ان کی طیّب و طاہر اور نیک و پاک اولاد پر۔ اے اہلِ کوفہ! اے اہل فریب و مکر! کیا اب تم روتے ہو؟ خدا کرے تمہارے آنسو کبھی خشک نہ ہوں اور تمہاری آہ و فغان کبھی بند نہ ہو۔
تمہاری مثال اس عورت جیسی ہے جس نے بڑی محنت و جاں فشانی سے محکم ڈوری بانٹی اور پھر خود ہی اسے کھول دیا اور اپنی محنت پر پانی پھیر دیا۔ تم منافقانہ طور پر ایسی جُھوٹی قسمیں کھاتے ہو جن میں کوئی صداقت نہیں۔ تم جتنے بھی ہو، سب کے سب بیہودہ گو، شیخیاں مارنے والے، پیکر فسق و فجور اور فسادی، کینہ پرور اور لونڈیوں کی طرح جُھوٹے چاپلوس اور دشمنی کے غماز ہو۔ تمہاری مثال کثافت گندگی پر اگنے والے سبزے یا اس چاندی جیسی ہے جو دفن شدہ عورت (کی قبر) پر رکھی جائے۔
آگاہ رہو! تم نے بہت ہی بُرے اعمال کا ارتکاب کیا ہے۔ جس کی وجہ سے خداوند عالم تم پر غضب ناک ہے۔ اس لیے تم اس کے ابدی عذاب و عتاب میں گرفتار ہوگئے۔ اب کیوں گریہ و زاری کرتے ہو؟ ہاں بہ خدا! البتہ تم اس کے سزاوار ہو کہ روؤ زیادہ اور ہنسو کم۔ تم اپنے امامؓ کے قتل میں ملوث ہو چکے ہو اور تم اس داغ کو کبھی دھو نہیں سکتے اور بھلا تم خاتم نبوت اور معدن رسالتؐ کے فرزند اور جوانان جنّت کے سردار، جنگ میں اپنے پشت پناہ، مصیبت میں جائے پناہ، منار حجّت اور عالم سنت کے قتل کے الزام سے کیوں کر بَری ہو سکتے ہو۔ لعنت ہو تم پر اور ہلاکت ہے تمہارے لیے۔ تم نے بہت ہی بُرے کام کا ارتکاب کیا ہے اور آخرت کے لیے بہت بُرا ذخیرہ جمع کیا ہے۔
تمہاری کوشش رائیگاں گئیں اور تم برباد ہوگئے۔ تمہاری تجارت خسارے میں رہی اور تم خدا کے غضب کا شکار ہوگئے۔ تم ذلت و رسوائی میں مبتلا ہوئے۔ افسوس ہے اے اہل کوفہ تم پر، کچھ جانتے بھی ہو کہ تم نے رسول خدا ﷺ کے کس جگر گوشہ کو پارہ پارہ کر دیا ؟ اور ان کا کون سا خون بہایا ؟ اور ان کی کون سی ہتک حرمت کی؟ اور ان کی کن مستورات کو بے پردہ کیا ؟ تم نے ایسے پست اعمال کا ارتکاب کیا ہے کہ آسمان گر پڑیں، زمین پھٹ جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں۔ تم نے قتلِ امامؓ کا سنگین جرم کیا ہے جو وسعت میں آسمان و زمین کے برابر ہے۔
اگر اس قدر بڑے گناہ پر آسمان سے خون برسے تو تعجب نہ کرو۔ یقیناً آخرت کا عذاب اس سے کہیں زیادہ سخت اور رسوا کن ہوگا۔ اور اس وقت تمہاری کوئی امداد نہ کی جائے گی۔ تمہیں جو مہلت ملی ہے اس سے خوش نہ ہو کیوں کہ خداوندِ عالم بدلہ لینے میں جلدی نہیں کرتا اور اسے انتقام کے فوت ہوجانے کا خدشہ نہیں ہے۔ یقیناً تمہارا خدا اپنے نافرمان بندوں کی گھات میں ہے۔‘‘
ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ نے جناب زینبؓ کی مساعی جلیلہ کا کس قدر پُراثر خلاصہ فرمایا ہے:
حدیث عشق دو باب است کربلا و دمشق
یکے حسینؓ رقم کرد و دیگرے زینبؓ
The post راضیہ بالقدر و القضاء حضرت زینبؓ appeared first on ایکسپریس اردو.