تخلیقی اظہار بنی نوع انسان کا اہم اور قدیم وصف ہے۔ شاعری ہو یا موسیقی، سنگ تراشی ہو یا پینٹنگ، فنون لطیفہ کی کوئی بھی صنف ہو، وہ موضوع کو عظمت عطا کر دیتی ہے۔
پتھروں، مہروں، لکڑی یا دیواروں پر کی گئی نقش نگاری اس بات کی شاہد ہے۔ خوش نویسی بھی ایک ایسا ہی فن ہے جو تحریر کے ذریعہ حروف کو زندہ جاوید بنا دیتا ہے۔ خوش نویسی اور دیواروں پر نقش نگاری کی تاریخ کے بارے میں متضاد آراء پائی جاتی ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک قدیم ترین فن ہے۔ یورپ میں رومن سلطنت کے دوران عام استعمال کے لئے فن تحریر کو ترقی دی گئی ۔ پانچویں صدی میں رومن سلطنت کے زوال کے بعد روزمرہ کے کام کاج میں تحریر سے کام لینے کا رواج بھی ختم ہو گیا ۔ لیکن تعلیم یافتہ لوگ اور آرٹسٹ برابر اس کام میں لگے رہے۔ مگر طباعت (Printing) اور ٹائپ رائٹر کی ایجاد نے اس کام کو بری طرح متاثر کیا اور الفاظ کو حسین انداز میں ظاہر کرنے کا کام کاتبوں، پیشہ وروں اور آرٹسٹوں تک محدود ہو کر رہ گیا۔
تاریخ شاہد ہے کہ زمانہ قدیم ہی سے انسان کا ذہن علوم و فنون کی طرف مائل رہا ہے اور اسی ذوق و شوق اور دلچسپی کے باعث ہر زمانے میں ترویج و اشاعت کی نئی نئی شکلیں وجود میں آتی رہیں اور انھی شکلوں پر انسانی معاشرے کا ڈھانچہ بھی تیار ہوتا رہا ہے۔ انسان نے لکھنا پڑھنا جاننے سے قبل بھی پہاڑوں اور غاروں پر نقش نگاری کے جوہر دکھائے ہیں ۔ قدیم تہذیبوں میں نقش نگاری کو اپنے شکار کے علاقہ کو یاد رکھنے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا تھا اور کئی جنگوں کی داستانیں بھی پہاڑوں اور غاروں کی دیواروں پر رقم ہیں۔
اس قدیم فن کو آج زوال پذیر تو کہا جا سکتا ہے لیکن کسی نہ کسی صورت آج بھی انسان اپنے جذبات اور خیالات کو سامنے لانے کے لئے اسی فن کا سہارا لیتا ہے۔ وطن عزیز میں کسی سیاسی جماعت کی ترویج ہو ، مذہبی اجتماعات، جلوس، مجالس، سیاسی پروگراموں، فلموں، ڈراموں کی تشہیر کے لئے بھی اسی فن کا سہارا لیا جاتا ہے، ملک کے مختلف شہروں خصوصاً شہری آبادی میں داخل ہوتے ہی دیواروں پر انواع و اقسام کی تحریریں لکھی ہوئی نظر آتی ہیں جن میں سے بیشتر شہر میں داخل ہونے سے قبل ہی شہر کی ’’داستان‘‘ سنا دیتی ہیں ۔ ملک میں ایک دہائی سے جاری جنگ کے اثرات سڑکوں پر بھی نمایاں طور پر دکھائی دیتے ہیں ملک کے مختلف شہروں میں دیواروں پر دلخراش تحریریں کسی بھی دردِ دل رکھنے والے کو جھنجھوڑ دینے کے لئے کافی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے نہ صرف ہماری معیشت بلکہ پاکستان کے سماجی و معاشرتی ڈھانچے کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ یہ جنگ پاکستان میں متعدی وباء کی طرح پھیلی ہے جو اب تک 50 ہزار سے زائد شہریوں، سکیورٹی اہلکاروں کو کھا چکی ہے جس سے نہ صرف بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر کی تباہی ہوئی بلکہ کراچی سے خیبر تک رونما ہونے والے دھماکوں نے عام آدمی کے چہرے سے مسکراہٹ چھین کر اسے ذہنی تناؤ کا شکار بنا دیا ہے۔ 10 سال کے اس عرصے میں معاشرے کی ثقافت بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ حالیہ صورتحال میں پاکستان کی معیشت اور سماج پر پڑنے والے اثرات کا درست تخمینہ لگانا انتہائی دشوار ہے۔ لیکن ایک چیز واضح ہے کہ پاکستان اس کی قیمت ادا کرتا رہے گا۔
سب سے پہلے ’’روشنیوں‘‘ کے شہر کا رُخ کرتے ہیں جہاں پر شہر کی دیواروں پر مختلف سیاسی جماعتوں، حکماء، سنیاسیوں کے اشتہارات تو نظر آئیں گے ہی لیکن ان کے ساتھ دیواروں پر ایسی تحریریں بھی دیکھنے کو ملیں گی جو دل دہلا دینے والی ہیں۔ کراچی شہر کے تقریباً تمام علاقوں کی دیواریں ’’فوری ایمبولینس‘‘ …… ’’ایمبولینس 3 منٹ میں آپ کے گھر‘‘ …… ’’سب سے پہلے چھیپا‘‘ سے رنگین نظر آئیں گی ۔ یہ تحریریں شہر کے حقیقی حالات کی عکاسی کرتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ شہر کے باسیوں کو سب سے زیادہ ضرورت کس چیز کی ہے اور سب سے زیادہ مانگ کس چیز کی۔
کراچی کے بعد سب سے زیادہ ’’بھیانک‘‘ اشتہارات پشاور کی دیواروں پر دیکھنے کو ملتے ہیں ، شہر میں داخل ہونے سے قبل ہی دیواروں پر لکھے جملے اس شہر کے باسیوں کی ضروریات سے آگاہ کرتے نظر آتے ہیں ، شہر میں داخلہ سے قبل دیواروں پر کندہ جملے ملک میں پائی جانے والی صورتحال سے آگاہ کرنے کے لئے کافی ہیں جن میں سرفہرست ’’تابوت 24 گھنٹے دستیاب ہیں‘‘ …… ’’کفن دفن کا سامان ارزاں نرخوں پر حاصل کریں‘‘ …… تدفین کا سامان ہر وقت موجود ہے‘‘ …… ’’ وافر مقدار میں تابوت کسی بھی وقت حاصل کریں‘‘ یہ وہ تحریریں ہیں جو پشاور کے باسیوں کا نوحہ ان کے شہر میں داخل ہونے سے قبل ہی سنانا شروع کر دیتی ہیں ۔ ملک کے تقریباً تمام باسی اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ گزشتہ دہائی سے جاری دہشت گردی کی لہر نے سب سے زیادہ پشاور کو ہی متاثر کیا ہے اور بد قسمتی کے ساتھ دہشت گردی کا نشانہ بننے والے اکثر افراد کی نعشیں اس قابل نہیں ہوتیں کہ ان کی تدفین عام طریقے سے کی جا سکے اس لئے ان کی تدفین کے لئے تابوت لازمی جزو ہے اور پشاور میں یہ ’’کاروبار‘‘ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ جہاں ملک میں دیگر کاروبار مندے کا شکار ہیں، گزشتہ دہائی کے دوران اس کاروبار میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ ایک ہی روز میں درجنوں کی تعداد میں ہلاکتوں کی وجہ سے بیک وقت کئی تابوتوں کی ضرورت پڑی ہے جس کے باعث پھولوں کے شہر میں یہ کاروبار پھل پھول رہا ہے۔
شورش زدہ شہروں میں تیسرا نمبر کوئٹہ کا آتا ہے جس میں آپ کو اس قسم کے اشتہارات تو نظر نہیں آئیں گے لیکن صورتحال یہاں بھی مختلف نہیں ہے۔ کوئٹہ اور اس کے نواحی شہروں میں حکومت کی طرف سے کالعدم قرار دی جانے والی تنظیموں کی اشتہار بازی واضح نظر آئے گی اور دیواریں، مختلف پہاڑیاں حتیٰ کہ حکومت کی طرف سے لوگوں کی رہنمائی کے لئے لگائے گئے سائن بورڈ بھی کالعدم تنظیموں کے نعروں سے سجے انتظامیہ کی بے بسی کی دہائی دے رہے ہیں ۔ حکومت نے جن جن تنظیموں پر پابندی لگا رکھی ہے ان کا بلوچستان بھر میں اثر و رسوخ پایا جاتا ہے جس کے باعث بلوچستان کے اکثر علاقوں میں یہ تنظیمیں فعال اور حکومت کو چیلنج کرتی نظر آتی ہیں۔
اس کے بر عکس پنجاب کے بیشتر شہروں میں صورتحال مختلف نظر آتی ہے اور اس کی دیواروں پر سیاسی نعرے، حکماء، رنگ گورا کرنے والی کریموں، سٹیج ڈراموں، فلموں اور کہیں کہیں گھریلو ضروریات کی اشیاء کے اشتہارات نظر آتے ہیں لیکن کراچی، پشاور اور کوئٹہ کی طرح دل دہلا دینے والے فقرے کہیں نظر نہیں آئیں گے۔
موجودہ حکومت ملک کے حالات بہتر کرنے کے لئے مختلف اقدامات کر رہی ہے مگر دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ اس طرف بھی تھوڑی سی توجہ دی جائے تو حکام کا منہ چڑاتی یہ دیواریں صاف ہو سکتی ہیں ۔ پنجاب میں وقتاً فوقتاً اس طرف توجہ دی جاتی ہے یا کم از کم اس قسم کے نعروں اور اشتہارات سے آویزاں دیواروں پر ’’رنگ‘‘ پھیر دیا جاتا ہے۔ دیگر صوبے بھی اس قسم کے اقدامات شہریوں کو مزید ذہنی کوفت سے نجات دلا سکتے ہیں ۔ ان تمام شہروں میں رہنے والوں کو تو یہ صورتحال شائد اتنی عجیب نہ لگے لیکن جونہی کوئی اجنبی شخص ان شہروں کی حدود میں داخل ہوتا ہے تو یہ دلخراش تحریریں شہر میں داخل ہونے سے قبل ہی اس کو شہر کی داستان سنانا شروع کر دیتی ہیں تو دوسری طرف شہر کے باسی بھی ان اشتہارات سے تنگ دکھائی دیتے ہیں۔
ماہر نفسیات پروفیسر ڈاکٹر عبدالرحمن کہتے ہیں کہ پاکستانی شہریوں ، خاص طور پر شورش زدہ صوبہ خیبر پختونخوا اور فاٹا کے باسیوں میں پچھلے 10 برس میں ایک انجانے خوف ، بے یقینی کی صورتِ حال ، پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر، ڈپریشن اور ذہنی پریشانی میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے ۔ اِن نفسیاتی بیماریوں سے چھٹکارا پانے کے لئے لوگوں میں ذہنی سکون پہنچانے والی اور بسا اوقات نشہ آور ادویات کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے، جِس کے منفی اثرات نہ صرف اْن کی ذہنی صحت یا نفسیات ، بلکہ خراب جسمانی صحت کی صورت میں بھی سامنے آرہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی تحریریں بھی شہریوں کی زندگی پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں ۔ یہ بھی جدید دور کی آلودگی ہے جس سے شہری نہ چاہتے ہوئے بھی متاثر ہوتے ہیں کیونکہ سڑکیں سب کی مشترکہ ملکیت ہیں اور ان پر اس قسم کی تحریریں تمام عمر اور تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد پڑھتے ہیں جن میں بچے بھی شامل ہیں جو ان کی نفسیات پر تمام عمر کے لئے منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔